فیض حمید کی سزا: ایک غیر معمولی فیصلہ یا روایتی تسلسل؟

ایک سال سے زائد عرصے بعد گزشتہ ہفتے فیض حمید کی سزا کا اعلان کیا گیا، یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کسی کے لیے حیران کن تھا، جب گزشتہ سال ان کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی تھی تو سزا تقریباً طے شدہ نظر آتی تھی۔ گزشتہ چند مہینوں میں بھی اس حوالے سے کئی لیکس سامنے آتی رہی تھیں کہ فیصلہ کسی بھی دن آ سکتا ہے۔

جو افراد طاقت کے مراکز تک رسائی نہیں رکھتے، ان کے لیے یہ سمجھنا آسان نہیں کہ اس سزا کا پاکستان، اس کے ریاستی ڈھانچے اور فوج کے لیے کیا مطلب ہے۔ اسی لیے اس سزا سے متعلق چند خیالات اور سوالات پیش کیے جا رہے ہیں، جو بلاشبہ غیر معمولی ہے، کیونکہ آئی ایس آئی کی قیادت کرنے والے کسی افسر کو اس سے قبل اس کے اپنے ادارے نے کبھی جواب دہ نہیں ٹھہرایا۔

تاہم یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں سول اور عسکری تعلقات پیچیدہ رہے ہیں، آئی ایس آئی کے سربراہان ہمیشہ تنازعات کی زد میں رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر سیاسی اور طاقت کے تعلقات کا نتیجہ رہا ہے، نہ کہ محض افراد کا۔ اسد درانی سے لے کر حمید گل اور احسان الحق تک، یہ سب شخصیات میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں، حالانکہ اس دور کا میڈیا آج کے مقابلے میں خاصا محدود تھا۔

حالیہ دور میں شجاع پاشا آئے، جنہوں نے شاید اپنے سربراہ کے ساتھ توسیع کی روایت کو فروغ دیا۔ وہ میموگیٹ جیسے بحران میں بھی مرکزی کردار رہے، جہاں ان کا حلف نامہ تنازع اور عدم استحکام کا باعث بنا۔ اگرچہ آج انہیں زیادہ تر پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے اور مشہور لاہور جلسے کی منصوبہ بندی کرنے والے دماغ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

ان کے بعد ظہیرالاسلام آئے، جن پر 2014 کے دھرنے کی منصوبہ بندی کا الزام لگا۔ اس دھرنے کے عروج کے دوران میڈیا میں ایسی رپورٹس آئیں کہ حکومت سے ملاقاتوں میں ان اور اس وقت کے آرمی چیف کے درمیان بے چینی پائی جاتی تھی۔ اس کے بعد رضوان اختر آئے، جنہوں نے نسبتاً خاموشی سے اپنی مدت پوری کی جبکہ ان کے ماتحت فیض حمید تمام تر توجہ کا مرکز بنے رہے اور 2018 کے انتخابات سے قبل ملک بھر میں سرگرم رہے۔ تاہم رضوان اختر بھی جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے قریب پیدا ہونے والے تنازعات سے محفوظ نہ رہ سکے، مثلاً جب ایک سینیٹر نے قمر جاوید باجوہ کے بارے میں بیان دیا، جو اس وقت ابھی آرمی چیف منتخب نہیں ہوئے تھے۔

یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فیض حمید کے کریئر میں دو ایسے ادوار آئے جب وہ غیر معمولی طور پر نمایاں رہے۔ سیاست میں مداخلت، قتل کے الزامات، دھمکیاں، میڈیا کو دبانا اور حتیٰ کہ رشوت ستانی ان پر ہر طرح کے الزامات لگے، اور اب ان میں سے بہت سی باتیں کھلے عام کہی جا رہی ہیں۔ سیاست دانوں اور صحافیوں نے ان کی جانب سے دی گئی دھمکیوں اور اقدامات پر کھل کر بات کی ہے، اور یہ سب اب عوامی مباحثے کا حصہ بن چکا ہے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے جانے کے بعد ندیم انجم بھی عوامی نظروں اور افواہوں سے زیادہ دور نہ رہ سکے۔ درحقیقت، وہ شاید واحد انٹیلی جنس سربراہ تھے جنہوں نے براہِ راست نشر ہونے والی پریس کانفرنس بھی کی۔

اس پس منظر میں یہ سوال اہم ہے کہ آیا فیض حمید نے ایسی حدیں عبور کیں جو ناقابلِ قبول تھیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ یہ نتیجہ اخذ کرنے میں وقت لگ سکتا ہے کہ آیا وہ ایک استثنیٰ تھے یا پھر انہوں نے طاقت کے استعمال کا ایک نیا معمول قائم کر دیا۔

اس سوال کا جواب اس لیے بھی مشکل ہے کہ ان کی سزا کی تفصیلات بہت محدود انداز میں سامنے آئی ہیں۔ پریس ریلیز کے مطابق ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال، لوگوں کو نقصان پہنچانے، آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی اور سیاست میں مداخلت کے الزامات ثابت ہوئے۔

پہلے دو الزامات کو غالباً ٹاپ سٹی اسکینڈل سے جوڑا جا سکتا ہے، جہاں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ڈیفنس اہلکاروں کے ذریعے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان کو دھمکایا۔ تاہم آخری دو الزامات کے بارے میں قیاس آرائی کے سوا کچھ کہنا مشکل ہے۔ سیاست میں ان کے کن اقدامات کو غلط قرار دیا گیا اور کون سے قابلِ قبول سمجھے گئے، اس پر کوئی وضاحت نہیں، خصوصاً جب پریس ریلیز میں اشارہ دیا گیا کہ 9 مئی سے متعلق تحقیقات ابھی زیرِ التوا ہو سکتی ہیں۔

عوامی سطح پر ان کے اقدامات پر بھرپور بحث ہو رہی ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ کورٹ مارشل میں کن امور کو قابلِ سزا قرار دیا گیا۔ اگرچہ یہ مباحثہ انہیں ایک ولن کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا ان کی سزا مستقبل میں اسی نوعیت کی طاقت رکھنے والوں کے لیے واقعی کوئی رکاوٹ بنے گی یا نہیں۔

تیسرا پہلو 9 مئی کا مقدمہ ہے، جس میں بظاہر مزید تحقیقات ہو سکتی ہیں، اور جس کے اثرات عمران خان تک جا سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اشارے اور بیانات جاری رہیں گے، مگر حتیٰ کہ اگر ایک اور کورٹ مارشل اور پھر عمران خان کو سزا بھی ہو جائے، تب بھی 9 مئی پر بحث ختم نہیں ہوگی جب تک کہ ان مقدمات کو عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا۔ کیونکہ اس صورت میں بھی یہ واضح نہیں ہوگا کہ لاہور میں ایک سینئر فوجی افسر کو 9 مئی کے فوراً بعد بغیر کورٹ مارشل کیوں ہٹایا گیا، اگر اصل ذمہ دار فیض حمید اور عمران خان ہی تھے۔ اور نہ ہی یہ وضاحت ہوگی کہ دیگر ملزمان کو عام عدالتوں میں عام پولیس اہلکاروں کی گواہی پر کیوں سزا دی گئی، اگر شواہد اتنے مضبوط تھے کہ ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ایک سابق وزیرِ اعظم کو سزا دی جاسکتی۔

تجزیاتی حلقوں میں یہ دعویٰ بھی کثرت سے سننے میں آ رہا ہے کہ 14 سال کی یہ سزا بعد میں کم ہو سکتی ہے۔ کیا یہ محض قیاس آرائی ہے یا کسی ٹھوس بنیاد پر؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ تاہم کچھ لوگ جنرل جاوید اقبال کے مقدمے کی مثال دیتے ہیں، جن کی سزا کم ہونے کے بعد بالآخر معافی بھی ہو گئی تھی۔ اور ان پر جاسوسی جیسے سنگین الزامات تھے، جو بظاہر سیاست میں مداخلت کے مقابلے میں زیادہ سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔

فی الحال، اگر شک کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ فیض حمید کی سزا واقعی کسی اہم موڑ کی علامت ہے یا محض ماضی کی روایتوں کا ایک اور تسلسل۔

اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے