وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ میری رائے کے مطابق کمانڈر آف ڈیفنس فورسز ( سی ڈی ایف ) کا عہدہ آرمی کے پاس ہی رہے گا، ترمیم ابھی منظور ہونی ہے، ہوسکتا ہے کوئی مزید ترمیم ہوجائے، ججز کے ٹرانسفر سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، یہ جوڈیشری کا اپنا معاملہ ہوگا۔
ڈان نیو ز کے مطابق نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 55 ہزار کیسز زیرالتوا ہیں، 15 فیصد سے کم کیسز آئینی نوعیت کے ہیں، آئینی عدالت سول اور کرمنل کے عام کیسز نہیں سنے گی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے بے شمار ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہوتی ہیں، پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) بھی آئینی عدالت سے متعلق بات کرتی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ججز کے ٹرانسفر سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، یہ جوڈیشری کا اپنا معاملہ ہوگا، وزیراعظم یا کوئی بیوروکریٹ ججز کا ٹرانسفر نہیں کریں گے، یہ جوڈیشری کا معاملہ ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ججز کو ٹرانسفر کرنے والے فورم میں اپوزیشن کے لوگ بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میری رائے کے مطابق کمانڈر آف ڈیفنس فورسز ( سی ڈی ایف ) کا عہدہ آرمی کے پاس ہی رہے گا، آرمی چیف ہی ہمیشہ سینیئر پوسٹ سنبھالتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیوی اور ایئرفورس کی آپریشنل صلاحیت ان کے ہی چیفس کے ماتحت ہوں گی، ایئرچیف اور نیول چیف اپنے ڈومین میں خودمختار ہوں گے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ جنگ یا اسٹریٹجک فیصلے کی صورت میں سب کو مل کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے، یہ معمول کی بات ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ترمیم ابھی منظور ہونی ہے، ہوسکتا ہے کوئی مزید ترمیم ہوجائے، ہوسکتا ہے 27 ویں ترمیم ایوان میں منظور ہوتے وقت مزید کوئی ترمیم شامل کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ م نے نصف صدی تک افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی مگر انہوں نے پاکستان میں مخالف سرگرمیاں جاری رکھیں، افغان مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سیز فائر کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم بھی ردعمل دیں گے، افغانستان کے ساتھ مذاکرات ختم ہوگئے، سیز فائر رہے گا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ افغان طالبان کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے مذاکرات کے دوران بھی جارحیت کی۔
