آباد کاری کیلئے حکومت سندھ نے اب تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، نالہ متاثرین

کراچی میں گجر، اورنگی اور محمودآباد نالوں کے اطراف میں کی جانے والی تجاوزات کے خلاف انہدامی کارروائیوں کے متاثرین نے کہا ہے کہ 2021 میں ان کے گھر مسمار کیے جانے کے بعد سے وہ سخت اور غیر یقینی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اور بار بار حکام کی جانب سے وعدے کیے جانے کے باوجود اب تک ان کی بحالی کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق ہفتے کے روز کراچی پریس کلب میں کراچی بچاؤ تحریک (کے بی ٹی ) کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں متاثرین اور تحریک کے اراکین نے سندھ حکومت اور متعلقہ اداروں پر ’ بدعنوانی اور دانستہ غفلت’ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکام کی ہزاروں بے گھر ہونے والے خاندانوں کو دوبارہ آباد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

شہر کے ایک بزرگ شہری محمد سلیم نے اپنی ملکیتی دستاویزات اور سرکاری کاغذات کا ایک پلندہ دکھاتے ہوئے بتایا کہ وہ اسسٹنٹ کمشنرز، ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور بلدیاتی حکام کے دفاتر کے بے شمار چکر لگا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’ ان تمام دوروں اور اہلکاروں کی بارہا یقین دہانیوں کے باوجود مجھے کچھ نہیں ملا۔’
انہوں نے بتایا کہ محمودآباد نالے کے قریب ان کا گھر انہدامی مہم کے دوران مسمار کیا گیا، جو انہوں نے کئی برس بیرون ملک محنت کر کے کمائے گئے پیسوں سے بنایا تھا۔

انہوں نے لرزتی آواز میں کہا’اب میں اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔ خدا کے لیے ہم پر رحم کریں’ ۔

دیگر متاثرہ افراد، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، نے اسی طرح کے دکھ بیان کیے اور کہا کہ وہ اور ان کے بچے غیر یقینی مستقبل کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے صوبائی حکام، بالخصوص عدلیہ سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور انہیں ان کے وعدے کے مطابق ان کا حق دیں۔

اس موقع پر کراچی بچاؤ تحریک کے کنوینر خرم علی نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ 2020 میں کراچی میں آنے والے شہری سیلاب کا الزام غلط طور پر ’ کچی آبادیوں’ پر ڈالا گیا، جس کے نتیجے میں تقریباً 9 ہزار گھر مسمار کیے گئے اور 50 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو گئے۔

ان متاثرہ خاندانوں کے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ متاثرہ خاندانوں کو پلاٹ اور تعمیراتی اخراجات فراہم کیے جائیں، اور جب تک ان کی بحالی نہ ہو جائے، انہیں کرایہ ادا کرنے کے لیے ماہانہ چیکس دیے جائیں۔

تاہم، خرم علی کے مطابق، یہ چیکس صرف دسمبر 2023 تک جاری کیے گئے، وہ بھی اس وقت جب کراچی بچاؤ تحریک کے وکیل نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت نے صوبائی حکام کو طلب کر کے انہیں قصوروار قرار دیا۔ مگر گزشتہ ڈیڑھ سال سے مقدمے کی سماعت نہیں ہوئی اور اس وجہ سے کرایہ کی ادائیگی بھی بند ہے۔

مزید برآں، عدالت نے حکم دیا تھا کہ ہر خاندان کو 80 گز کا پلاٹ اور تعمیراتی فنڈ دیا جائے، مگر سندھ حکومت اس پر عملدرآمد میں تاخیر کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ اس سال کے آغاز میں تعمیر کے لیے جو تھوڑی سی رقم جاری کی گئی، وہ ایک کمرہ بنانے کے لیے بھی ناکافی ہے’ اور مزید بتایا کہ اب حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ پلاٹس 2027 کے بعد دیے جائیں گے۔

عدالت نے ایڈیشنل کمشنر-II زنیرہ جلیل کو متاثرہ خاندانوں کی شکایات درج کرنے کے لیے فوکل پرسن مقرر کیا تھا، لیکن ان کا تبادلہ ’ جان بوجھ کر’ کر دیا گیا، جس کے بعد ہزاروں تصدیق شدہ شکایات بغیر جانچ کے خارج کر دی گئیں۔

انہوں نے سوال کیا، ’ اگر یہ شکایات جھوٹی تھیں تو ان کی تصدیق کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟’

انہوں نے الزام لگایا کہ ’ بدعنوان افسران اور سیاسی نمائندے’ تعمیراتی فنڈز اور کرایہ کے چیکس جاری کرنے کے لیے رشوت طلب کر رہے ہیں۔

’ اورنگی ٹاؤن میں کچھ گروہوں نے ہر خاندان سے فائلیں آگے بڑھانے کے لیے 2 لاکھ روپے مانگے۔ جب یہ معاملہ سامنے آیا تو ادائیگیاں روک دی گئیں، اور نام نہاد تحقیقات نے اہلکاروں کو مزید وقت دے دیا کہ وہ پیسے بٹور سکیں۔’ انہوں نے کہا کہ اب تک کوئی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی۔

کراچی بچاؤ تحریک اور متاثرین نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر ہر خاندان کو ماہانہ 30 ہزار روپے کرایے کے طور پر جاری کرے، جب تک کہ ان کی باقاعدہ بحالی نہ ہو جائے، اور تمام پچھلے بقایاجات بھی ادا کیے جائیں۔

تعمیراتی اخراجات کے لیے ہر متاثرہ خاندان کو 30 لاکھ روپے دیے جائیں تاکہ وہ موجودہ تعمیراتی لاگت کے مطابق اپنے گھر دوبارہ بنا سکیں۔

مزید یہ کہ دو ہزار سے زائد خارج شدہ شکایات کو شفاف طریقہ کار کے تحت دوبارہ درج کیا جائے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیٹی تشکیل دی جائے، جس میں سول سوسائٹی، متاثرہ افراد اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے شامل ہوں، تاکہ اندراج اور بحالی کے عمل کی نگرانی کی جا سکے۔

حکومت ایک واضح اور ناقابلِ تبدیلی شیڈول جاری کرے، جس کے تحت تمام پلاٹ 90 دن کے اندر الاٹ کیے جائیں اور متبادل زمین بلا تاخیر فراہم کی جائے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کے مطالبات سات دن کے اندر پورے نہ کیے گئے تو وہ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور شہر میں قائم سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر بھرپور احتجاج اور دھرنے شروع کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے