پاکستان میں ہجوم اب سڑکوں پر نہیں، اسکرین پر بنتا ہے!

پاکستان ایسے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں ہجوم پہلے سے زیادہ تیزی سے بنے گا، تیزی سے بکھرے گا اور زیادہ غیر متوقع انداز میں عمل کرے گا۔ اگر ادارے خود کو تبدیل نہیں کر سکے تو اگلا بڑا بحران کسی سیاسی اعلان یا مذہبی خطبے سے نہیں بلکہ کسی بارہ سیکنڈ کے کلپ سے شروع ہوگا۔

کئی دہائیوں تک پاکستان میں عوامی اجتماع ایک متوقع راستہ اختیار کرتا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں احتجاجی کال دیتیں، علما جلوسوں کا اعلان کرتے اور مزدور یونینیں مارچ منظم کرتیں۔ پولیس برسوں تک اسی طرز عمل پر انحصار کرتی رہی، قیادت سے مذاکرات، راستوں کی منصوبہ بندی اور ماضی کے تجربات کی بنیاد پر شدت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔

لیکن اب ملک بھر میں ہجوم اس انداز میں منظم نہیں ہوتا جیسا ہمارے ادارے تصور کرتے ہیں۔ وہ دور گزر چکا ہے۔

آج ہجوم سڑک پر آنے سے بہت پہلے ایک اسمارٹ فون کے اندر تشکیل پاتا ہے۔ کوئی مختصر ویڈیو، ایڈیٹ کیا گیا کلپ، وائس نوٹ یا واٹس ایپ پر فارورڈ ہونے والی افواہ کسی بھی سیاسی ہدایت سے کہیں زیادہ تیزی سے لوگوں کو متحرک کر سکتی ہے۔

ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پاکستان میں عوامی کو متحرک کرنے کے اصل انجن بن چکے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز کے الگورتھمز جذباتی مواد کو ترجیح دیتے ہیں، جیسے غصہ، اشتعال، مظلومیت کا احساس اور مذہبی جذبات، اور انہیں تیزی سے لاکھوں افراد تک پہنچا دیتے ہیں۔

جب وائرل ہونا سیکیورٹی خطرہ بن جائے

لاہور میں تقریباً 11 ہزار 861 عوامی نظم و نسق کی کارروائیاں نمٹائی گئیں، جن میں سیاسی احتجاج، مذہبی جلوس، محرم و عاشورہ کی مجالس اور یومِ آزادی کی تقریبات شامل تھیں، جس کے بعد ایک حقیقت واضح ہو چکی ہے۔ ہجوم جسمانی طور پر بننے سے پہلے ڈیجیٹل طور پر تشکیل پاتا ہے۔ جب تک پولیس کی پہلی نفری کسی واقعے کی جگہ پہنچتی ہے، آن لائن جذباتی اشتعال پہلے ہی پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔

یہ روایتی نہیں بلکہ الگورتھم کے ذریعے پیدا ہونے والی تحریک ہے۔

اس کی ایک نمایاں مثال گزشتہ سال پنجاب کالج برائے خواتین کے طلبہ میں پھیلنے والی جعلی زیادتی کی اطلاع تھی، جو لمحوں میں وائرل ہو گئی اور صوبے کے بڑے شہروں میں ہزاروں افراد کے جمع ہونے کا باعث بنی۔

ایک اور واقعے میں اکتوبر 2025 میں لاہور پریس کلب کے قریب فلسطین کے حق میں ہونے والا احتجاج ابتدا میں پُرامن رہا، مگر آن لائن اشتعال انگیز مواد اور لائیو ویڈیوز پھیلنے کے بعد پرتشدد ہو گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ الگورتھم سے پیدا ہونے والی شدت کا نتیجہ تھا۔

سیکڑوں بلکہ ہزاروں افراد نے ایک حساس عمارت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، جس سے سیکیورٹی کی انتہائی خطرناک صورتحال پیدا ہوئی۔ صورتحال کو تیزی سے کنٹرول، محدود طاقت کے استعمال، قیادت کو الگ کرنے اور منتظمین سے رابطے کے ذریعے قابو میں کیا گیا اور بعد ازاں اہم تنصیبات کو محفوظ بنایا گیا۔

جب یہ تحریک مذہبی نوعیت کی ہو تو یہ اور بھی تیز اور غیر مستحکم ہو جاتی ہے۔ کوئی مختصر خطبہ، پرانا ویڈیو کلپ یا دانستہ طور پر اس طرح ایڈٹ کیا گیا مواد جو توہین کا تاثر دے، یہ سب بجلی کی رفتار سے پھیلتے ہیں۔ کئی مواقع پر دنوں کی محنت سے ہونے والے مذاکرات صرف اس لمحے ناکام ہو گئے جب ایسا کوئی کلپ گردش میں آیا اور متوقع حد سے کئی زیادہ ہجوم اکٹھا ہو گیا۔

محرم اور دیگر مذہبی مواقع اب ایک متوازی ڈیجیٹل میدان کے ساتھ انجام پاتے ہیں جو اکثر خود جلوس سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ 2024 میں چہلم کے جلوس کے دوران پیر مکی کٹ پر اس وقت ایک معمولی فرقہ وارانہ جھڑپ ہوئی جب ایک چھوٹے گروہ نے طے شدہ راستے کی خلاف ورزی کی۔ غیر مجاز کراسنگ سے تلخ کلامی اور ہلکی پھلکی ہاتھا پائی ہوئی۔

لیکن اس واقعے کی سیاق و سباق سے مختلف ویڈیوز تیزی سے آن لائن پھیل گئیں، جس سے زمینی حقائق سے زیادہ بڑا خطرہ ظاہر ہونے لگا اور وسیع پیمانے پر انتشار کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ صورتحال کو فوری طور پر انتظامی گرفت اور مقامی شیعہ و سنی عمائدین سے مذاکرات کے ذریعے قابو میں کیا گیا، یوں ڈیجیٹل شدت کو سڑکوں تک پھیلنے سے روک دیا گیا۔

لاہور میں یومِ آزادی کے موقع پر ایک بالکل نیا رجحان سامنے آیا، جسے نمائشی بے امنی کہا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر نوجوانوں کے بڑے گروہ جو کسی سیاسی مقصد کے تحت نہیں نکلے اور نہ ہی انہیں نظام سے کوئی شکایت تھی، بلکہ صرف دکھائی دینے اور وائرل ہونے کی خواہش کے زیر اثر انہوں نے عجیب و غیر رویہ اپنایا۔ ان کی لائیو اسٹریمز نے خطرناک ایکشن، جارحیت اور ہراسانی کو ہوا دی۔

ان تمام تبدیلیوں کے باوجود پاکستان کا پولیسنگ ماڈل اب بھی پرانے مفروضوں پر قائم ہے۔

جدید ڈیجیٹل حکمت عملی ناگزیر

ہم آج بھی کسی تقریب کی تیاری شرکا کی تعداد، سیاسی قیادت اور طے شدہ راستوں کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ لیکن الگورتھم سے بننے والے ہجوم نہ قیادت کی پیروی کرتے ہیں، نہ بتدریج جمع ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا رویہ قابلِ پیش گوئی ہوتا ہے۔ ان کے محرکات نظریے سے کم اور جذبات سے زیادہ جڑے ہوتے ہیں۔

سادہ لفظوں میں، عوامی نظم و نسق کے مسائل اب آن لائن شروع ہوتے ہیں۔

اگر پاکستان کو عوامی سرگرمیوں کے ان بدلتے انداز سے نمٹنا ہے تو عوامی تحفظ کے لیے ڈیجیٹل بنیادوں پر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ اس میں ایسے خصوصی یونٹس کا قیام شامل ہے جو حقیقی وقت میں ڈیجیٹل جذبات کی نگرانی کریں، وائرل مواد کی نشاندہی کریں اور اشتعال انگیز مواد کے پھیلاؤ پر نظر رکھیں۔ سیف سٹی اداروں، ٹیلی کام ریگولیٹرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مل کر ایسا نظام بنانا ہوگا جو آن لائن انڈیکیٹرز اور زمینی حقائق کو جوڑ کر اپنی حکمت عملی مرتب کرے۔

یہ تبدیلی کسی حد تک نظر بھی آ رہی ہے، پنجاب پولیس آرڈر دوسری ترمیمی ایکٹ 2025 کے تحت ایک مخصوص رائٹ مینجمنٹ یونٹ بنانے کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کا مقصد غیر قانونی احتجاج اور ہجوم سے نمٹنے کے لیے خصوصی تربیت اور آلات فراہم کرنا ہے۔

مجوزہ قانون کے تحت حکام کو رائٹ زون قرار دینے، علاقوں کو گھیرے میں لینے، شہریوں کے انخلا اور نیک نیتی سے کارروائی کرنے والے اہلکاروں کو قانونی تحفظ دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اس کے ساتھ احتجاج کے منتظمین اور اکسانے والوں کو جانی و مالی نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانے اور تشدد یا توڑ پھوڑ پر سخت سزائیں، جن میں دس سال تک قید اور بھاری جرمانے شامل ہیں، عائد کرنے کی بات کی گئی ہے۔

تاہم محض نفاذ ڈیجیٹل سرگرمیوں کی رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اتنا ہی ضروری ہے کہ پیش گوئی پر مبنی تجزیات اور ’ہیٹ میپس‘ استعمال کیے جائیں، جو یہ بتا سکیں کہ آن لائن غصہ کن مقامات، شناختوں یا واقعات کے گرد جمع ہو رہا ہے۔

معیاری طریقہ کار کو اس طرح اپ ڈیٹ کرنا ہوگا کہ ڈیجیٹل تحریک کو ابتدائی وارننگ سمجھا جائے، پس منظر کا شور نہیں۔ عوامی نظم کے یونٹس کو گھنٹوں نہیں بلکہ منٹوں میں ردعمل دینے کے قابل ہونا چاہیے، اس سے پہلے کہ غلط معلومات بڑے پیمانے پر تحریک میں بدل جائیں۔ یہ فوری ایکشن اس وسیع تر سیکیورٹی ماحول میں اور بھی اہم ہو جاتا ہے جہاں ریاست پر کنٹرول دکھانے کا دباؤ مسلسل موجود ہے۔

روایتی انٹیلی جنس نظام سے آگے سوچنا ہوگا

سرحد پار دہشت گردی کے حوالے سے ہمسایہ ممالک پر دباؤ، اور اندرونِ ملک واقعات جیسے ایبٹ آباد میں خاتون ٹیچرکے قتل سے متلق آپریشن میں ایک اہم ملزم کی ہلاکت، اس ادارہ جاتی فضا کی عکاسی کرتے ہیں جہاں بے یقینی حالات میں فیصلہ کن رویے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں عوامی نظم و نسق اگر ڈیجیٹل دور کے مطابق نہ ڈھالا گیا تو یہ محض ردعمل اور طاقت کے استعمال تک محدود ہو جائے گا۔

اس سب کا مطلب اظہارِ رائے کو محدود کرنا یا اختلاف کو دبانا نہیں۔ اس کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ آج عوامی نظم و نسق ان قوتوں کے زیرِ اثر ہے جو روایتی انٹیلی جنس نظام کی رفتار سے بہت تیز ہیں۔ جب ویڈیو تصدیق سے پہلے پھیل جائے اور اشتعال عقل سے آگے نکل جائے تو پولیسنگ کو ڈنڈوں، رکاوٹوں اور بعد از کارروائی رپورٹس سے آگے بڑھنا ہوگا۔

پاکستان ایسے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں ہجوم پہلے سے زیادہ تیزی سے بنے گا، تیزی سے بکھرے گا اور زیادہ غیر متوقع انداز میں عمل کرے گا۔ اگر ادارے خود کو نہ تبدیل کر سکے تو اگلا بڑا بحران کسی سیاسی اعلان یا مذہبی خطبے سے نہیں بلکہ کسی بارہ سیکنڈ کے کلپ سے شروع ہوگا۔

عوامی تحفظ کے لیے ریاست کو ایک سادہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی۔ آج ہجوم سڑک پر نہیں بلکہ ’فیڈ‘ میں جنم لیتا ہے۔

یہ تحریر انگریزی میں پڑھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے