پاکستان پہلگام میں ملوث نہیں تھا، بھارت جواب دے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین  نے پاک بھارت جنگ پر رپورٹ جاری کر دی ہے جس کے مطابق پاکستان پہلگام میں ملوث نہیں تھا، اور اس حوالے بھارت سے جواب طلب کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات پر اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے سخت اعتراضات  اٹھاتے ہوئے پہلگام حملے کی مذمت کی ہے۔

خصوصی ماہرین کی رپورٹ میں ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دینے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

7 مئی 2025 کو بھارت نے ’’آپریشن سندور‘‘ کے تحت پاکستان کی حدود میں طاقت کا استعمال کیا، یہ طرزِ عمل اقوام متحدہ چارٹر کے کے خلاف ہے، بھارت نے اقوامِ متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت سیکورٹی کونسل کو باضابطہ اطلاع نہیں دی، پیشگی اطلاع نا دینا مطلوبہ طریقۂ کار کی خلاف ورزی قرار دی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ  بھارتی حملوں میں شہری علاقے نشانہ بنے، مساجد متاثر ہوئیں، اور متعدد شہری ہلاک و زخمی ہوئے،   ⁠7 مئی 2025 کو پاکستان نے بھارتی کارروائی کی مذمت کی، پاکستان نے سلامتی کونسل کو مطلع کیا کہ وہ آرٹیکل 51 کے تحت دفاع  کا حق رکھتا ہے۔

  ⁠بھارت یہ ثابت کرنے کیلئے قابلِ اعتبار شواہد پیش نہیں کر سکا کہ پہلگام حملے میں پاکستان کی ریاستی سطح پر کوئی شمولیت تھی، دہشتگردی کے نام پر یکطرفہ فوجی طاقت استعمال کرنے کا کوئی الگ حق تسلیم شدہ نہیں،  ⁠اگر طاقت کا استعمال غیر قانونی ہو تو یہ حقِ زندگی کی خلاف ورزی بن سکتا ہے،  ⁠بھارت کا یہ طرزِ عمل بڑے تصادم کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے،  ⁠اگر بھارتی اقدام’’مسلح حملہ‘‘سمجھا جائے تو پاکستان کو سیلف ڈیفنس کا حق حاصل ہے۔

 خصوصی ماہرین کی رپورٹ کے مطابق بھارتی اقدامات پاکستان کی خودمختاری، اور عدم مداخلت کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی  ہیں، اقوام متحدہ کے اسپیشل رپوٹیورز نے سندھ طاس معاہدے پر بھی پاکستان کے موقف اور بیانئے کی بھرپور تصدیق کر تے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو ’’ہیلڈ ان ابینس‘‘ کرنے پر بھارتی اعلان پر گہری تشویش ظاہر کی۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بے نقاب؛ اقوام متحدہ کی رپورٹ پر پاکستان کا اظہار تشویش

  ⁠پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ یا اس کی دھمکی پاکستان میں کروڑوں افراد کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہے،  ⁠پانی، خوراک، روزگار، صحت، ماحول اور ترقی کے حقوق اس فیصلے سے براہ راست زد میں آتے ہیں، ⁠سرحد پار حقِ آب میں مداخلت سے اجتناب لازم ہے۔ ⁠

خصوصی ماہرین کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پانی کو سیاسی یا معاشی دباؤ کا آلہ نہیں بنایا جا سکتا،  ⁠کوئی فریق یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا،  ⁠معاہدہ اس وقت تک نافذ رہتا ہے جب تک دونوں حکومتیں نئے معاہدے کے ذریعے اسے ختم نہ کریں، ’’ہیلڈ ان ابینس‘‘ کی بھارتی اصطلاح مبہم ہے۔

بھارت معاہداتی قانون کی معطلی سے متعلق دفعات کو واضح طور پر بروئے کار نہیں لایا، معاہدے کے طے شدہ طریقۂ کار کو بائی پاس کر کے یکطرفہ معطلی غیر قانونی قرار دی گی ہے،   ⁠تنازعات کا حل معاہدے میں درج تصفیہ کے طریقۂ کار کے تحت ہونا چاہیے۔

خصوصی ماہرین کی رپورٹ کے مطابق بھارتی  ’’میٹیریل بریچ‘‘ کی دلیل کمزور قرار دی گئی ہے، کیونکہ پاکستان کی جانب سے معاہدے کی کسی شق کی خلاف ورزی ظاہر نہیں ہوئی، بھارت کی طرف سے مبینہ ’’سرحد پار دہشتگردی‘‘ کے الزامات کو آبی معاہدے کی خلاف ورزی بنا کر پیش کرنا قانونی طور پر غیر متعلق قرار دیا گیا،’’بنیادی حالات کی تبدیلی‘‘ کی دلیل کا معیار انتہائی سخت ہے، اس دلیل کے لیے صرف آبادی یا توانائی کی ضروریات کافی نہیں۔

بھارت نے ’’کاؤنٹر میژرز‘‘ کے جواز کے لیے قابلِ اعتبار اور مربوط شواہد پیش نہیں کئے، پانی روکنا یا معاہدہ معطل کرنا غیر متناسب قدم ہے، پانی روکنے کا بوجھ براہِ راست عام پاکستانیوں کے حقوق پر پڑتا ہے، ‘‘کاؤنٹر میژرز‘‘ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہیں دیتے، اس کیلئے نوٹس، مذاکرات کی پیشکش اور طریقۂ کار کی قانونی شرائط پوری ہونی چاہیے، ’’کاؤنٹر میژرز‘‘ عارضی اور قابل واپسی ہوتے ہیں، مستقل خاتمے یا معطلی کا جواز نہیں بنتے۔

خصوصی ماہرین کی رپورٹ میں بھارت کی وجہ سے سندھ طاس معاہدے میں بگاڑ کی نشاندہی بھی کی گئی، کیونکہ انڈس کمیشن کے سالانہ اجلاس 2022 کے بعد نہیں ہوئے، ⁠ڈیٹا تبادلے میں رکاوٹ اور تصفیہ جاتی شقوں پر تنازعہ معاہدے کی روح کے خلاف ہے، بھارت نے ثالثی کارروائیوں میں شرکت سے گریز کیا اور سندھ طاس معاہدے کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کیا۔

‎ رپورٹ میں بھارت سے وضاحت طلب کی گئی ہے، اور ممکنہ تلافی و معذرت، معاہدے پر نیک نیتی سے عمل، اور انسانی نقصان روکنے کے اقدامات پر باضابطہ جواب طلب کیا گیا ہے۔

بھارت سندھ طاس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل کرے اور پاکستان کے حقوق کی خلاف ورزی سے باز رہے، بھارت پانی میں رکاوٹ سے پیدا ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی اور نقصانات روکنے کیلئے عملی اقدامات واضح کرے۔

اقوام متحدہ  کے اسپیشل ریپوٹیورز نے بھارت کے جھوٹ کو بینقاب کرتے ہوئے مودی سرکار کو ایک سولنامہ ارسال کیا گیا۔

 سوال 1: کیا بھارت کے پاس اپنے لگائے ہوئے الزامات کا کوئی ثبوت موجود ہے؟

سوال2: کیا بھارت طاقت کے  غیر قانونی استعمال کی وجہ سے انسانی زندگیوں کے نقصان کا ازالہ کرے گا اور اس پر معافی مانے گا؟

سوال3: کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کی ذمہ داریاں ادا کرے گا اور پاکستان کے قانونی حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کرے گا؟

سوال4: کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کی ’’ڈسپیوٹ ریزولوشن‘‘ کی شقوں کی پاسداری کا ارادہ رکھتا ہے؟

سوال5: یہ بھی بتایا جائے کے جموں کشمیر کے تنازع کے پرامن حل، اور کشمیریوں کو حق خُود ارادیت دینے کے لیےبھارت کیا اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے؟

رپورٹ کے مطابق بھارت ان تمام سوالوں کے جواب 60 دن کے اندر فراہم کرے، بھارت کے جواب رپورٹ کے ساتھ ویب سائٹ پر آویزاں کرنے کے علاوہ ہیومن رائٹس کونسل  میں پیش کیےجائیں گے۔

بھارت نے اقوام متحدہ کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا اور سوالات کے جواب نہ آنے پر اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین نے رپورٹ جاری کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے