رواں ماہ کے آخر تک ڈالر کی قدر 280 روپے سے نیچے آنے کی توقع

کرنسی ڈیلرز کے مطابق روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں ایک منظم انداز میں بڑھ رہی ہے، لیکن مارکیٹ توقع کر رہی ہے کہ مقامی کرنسی اس ماہ کے آخر تک 280 روپے کی حد کو عبور کر لے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مارکیٹ کے کھلاڑیوں کا خیال ہے کہ اسٹیٹ بینک کے لیے روپے کی قدر کم کر کے برآمدات بڑھانا مشکل ہوگا، کیوں کہ ماضی میں بارہا ہونے والی ڈی ویلیوایشن بھی برآمدات میں پائیدار اضافہ نہیں لاسکی۔

کچھ کرنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمدات کی مدد کے لیے مزید ڈی ویلیوایشن کی گنجائش کم ہے، خاص طور پر اس لیے کہ خود امریکی ڈالر بڑی عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں دباؤ کا شکار ہے۔

انٹربینک مارکیٹ کے کرنسی ڈیلر عاطف احمد نے کہا کہ اس توقع کے پیچھے کوئی ریاضیاتی حساب کتاب نہیں کہ ڈالر اس ماہ کے آخر تک 280 روپے سے نیچے جا سکتا ہے، یہ مارکیٹ کا تاثر ہے اور سال کے اختتام پر ایسا ہوتا ہے۔

ان کا خیال ہے کہ ڈالر مختصر وقت کے لیے ہی 280 روپے سے نیچے جا سکے گا۔

ماہرین ڈی ویلیوایشن کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماضی میں اس سے برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔

دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی طلب مستحکم رہے گی، لیکن 3 ارب ڈالر کے سعودی رول اوور کے بعد مارکیٹ کا تاثر بہتر ہوا ہے، جو روپے کو سہارا دے گا۔

ٹریژمارک کے سی ای او فیصل مامسا نے کہا کہ اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ یہ کہ روپیہ 280 سے نیچے چلا جائے، جو برآمدی صنعتوں کو غیر مستحکم کر سکتا ہے، جب کہ ’ہلکی سی ڈیپریسی ایشن ہی مناسب راستہ ہوگا‘۔

موجودہ مالی سال کے دوران روپیہ بتدریج مضبوط ہوا ہے، خاص طور پر 31 جولائی کے بعد سے، جب ڈالر نے سال کی بلند ترین سطح کو چھو لیا تھا، 31 جولائی کو ڈالر 284.27 روپے پر ٹریڈ ہو رہا تھا، جو ہفتے کے آخری کاروباری دن 280.42 روپے تک آ گیا۔

ایک ڈیلر کے مطابق امریکی ڈالر پہلے ہی بڑی بین الاقوامی کرنسیوں کے مقابلے میں تقریباً 12 فیصد کمزور ہوچکا ہے، اس لیے روپے نے مقامی مارکیٹ میں ڈالر کو نسبتاً مضبوط اور مستحکم رکھا۔

تاہم برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

نومبر میں برآمدات 15.4 فیصد کم ہوئیں، جس سے مالی سال 26 کے پہلے 5 ماہ کا تجارتی خسارہ بڑھ کر 37.2 ارب ڈالر ہو گیا اور کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ بڑھ گیا۔

مارکیٹ میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ برآمد کنندگان کی مدد کے لیے روپے کی قدر کم کرے، مگر روپے کی بتدریج مضبوطی نے ایسی تمام قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کر دیا۔

فیصل مامسا نے کہا کہ ہاں، کمزور روپے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں، وہی پرانے دلائل سننے کو ملتے ہیں کہ عالمی طلب کمزور ہے، بھارتی روپیہ 90 روپے فی ڈالر کے قریب جا رہا ہے، برآمد کنندگان زیادہ لاگت کی وجہ سے آرڈرز کی قیمتیں مقرر نہیں کر پا رہے، اور ڈی ویلیوایشن جادوئی طور پر ’مقابلہ جاتی صلاحیت‘ درست کر دے گی۔

روپیہ صرف دو سال میں 180 سے 300 روپے فی ڈالر تک گر گیا تھا، جو خطے کی تیز ترین ڈی ویلیوایشنز میں سے ایک تھی، لیکن نہ کوئی نمایاں برآمدی بوم آیا، نہ ہی درآمدات میں کوئی بڑی کمی ہوئی (سوائے اس کے جو اسٹیٹ بینک نے انتظامی طور پر نافذ کی)، اور نہ ہی کوئی ساختی بہتری دیکھی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ چند اشاعات اس ہفتے پھر ریئر (REER) کی تعریف کر رہی ہیں اور یہ تاثر دے رہی ہیں کہ کمزور روپیہ ’ضروری‘ ہے، یہی پرانی کہانی کہ ریئر 100 سے اوپر گیا، کرنسی ’اوور ویلیوڈ‘ ہے، لہٰذا اسے ڈی ویلیو کریں، یہ جدید زرمبادلہ مارکیٹ کو دیکھنے کا نامکمل طریقہ ہے۔

کرنسی ماہرین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آئی ایم ایف نے 2018 کے بعد سے ریئر کو ایکسچینج ریٹ کا بنیادی پیمانہ نہیں سمجھا، لیکن برآمد کنندگان اب بھی اپنی منافع خوری بڑھانے کے لیے ڈی ویلیوایشن کے حق میں سیاسی دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے