چہل قدمی کے انداز سے پارکنسن سے تشخیص ممکن

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ روزانہ کی چہل قدمی اور پیدل چلنے کے انداز سے پارکنسن کی بیماری کا ابتدائی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

طبی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے بگ ڈیٹا انسٹی ٹیوٹ اور نیو فیلڈ ڈیپارٹمنٹ آف پاپولیشن ہیلتھ کے سائنسدانوں نے برطانیہ بائیو بینک کے 94 ہزار سے زائد لوگوں کا ڈیٹا دیکھا۔

ڈیٹا میں شامل افراد نے 2013 سے 2015 تک اپنے ہاتھ پر ایک قسم کا سینسر پہنا ہوا تھا جو ان کی روزانہ کی چہل قدمی کی گنتی کرتا تھا۔

مذکورہ لوگ تقریباً 8 سال تک فالو کیے گئے اور ان میں سے 407 کو پارکنسن کی بیماری ہوئی، ان میں اوسطاً بیماری 5 سال بعد تشخیص ہوئی۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ جو لوگ روزانہ 12 ہزار سے زیادہ قدم چلتے تھے، ان میں پارکنسن ہونے کا خطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں 59 فیصد کم تھا جو 6 ہزار سے کم قدم چلتے تھے۔

ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ ہر ہزار اضافی قدم چلنے سے خطرہ 8 فیصد کم ہو جاتا ہے، چاہے وزن، ڈپریشن، ذیابیطس، قبض، پیشاب کی خرابی یا نیند کی مقدار جیسی دیگر چیزوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں میں بعد میں پارکنسن کی تشخیص ہوئی، ان کی چہل قدمی کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی تو گئی مگر پھر بھی صحت مند لوگوں سے کم رہی۔

ماہرین نے بتایا کہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ کم چلنا پارکنسن کی بیماری کی ابتدائی نشانی ہو سکتی ہے۔

ماہرین نے واضح کیا کہ کم چلنا یا چہل قدمی نہ کرپانا پارکنسن بیماری کی وجہ سے نہیں ہوتا، تاہم اسے بیماری کی ابتدائی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اسمارٹ واچز جیسے آلات سے روزانہ کی چالوں کی گنتی کرکے پارکنسن کی ابتدائی نگرانی کی جا سکتی ہے اور جسمانی سرگرمی کو بیماری کی روک تھام میں مددگار سمجھا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے