ایران میں پانی کا بحران سنگین، تہران کے خالی ہونے کا خدشہ

ایران کو پانی کے بدترین بحران کا سامنا ہے اور حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر ملک میں خشک سالی جاری رہی تو ایک کروڑ آبادی کا شہر تہران جلد ہی ناقابل رہائش ہوجائے گا، صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ اگر دسمبر تک بارش نہیں ہوئی تو حکومت کو تہران میں پانی کی تقسیم شروع کرنی پڑے گی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر نے 6 نومبر کو خبردار کیا کہ ’اگر ہم تقسیم بھی کریں اور پھر بھی بارش نہ ہو تو ہمارے پاس بالکل پانی نہیں ہوگا، شہریوں کو تہران چھوڑنا ہوگا‘۔

ایران کے روحانی حکمرانوں کے لیے صورتحال سنگین ہے، 2021 میں پانی کی قلت نے جنوبی خوزستان صوبے میں پرتشدد مظاہرے بھڑکا دیے تھے اور 2018 میں بھی کسانوں نے حکومت پر پانی کے انتظام میں ناکامی کے الزامات عائد کیے تھے۔

گرمیوں کے شدید موسم کے بعد پانی کا بحران صرف کم بارش کا نتیجہ نہیں ہے، برسوں کی بدانتظامی، بشمول ڈیموں کی زیادہ تعمیر، غیر قانونی کنوؤں کی کھدائی اور غیر مؤثر زرعی طریقوں نے پانی کے ذخائر کو ختم کر دیا ہے۔

صدر مسعود پزشکیان نے بحران کے لیے پچھلی حکومتوں کی پالیسیاں، موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی زیادتی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

اگرچہ اس وقت مظاہروں کا کوئی اشارہ نہیں ہے، ایرانی عوام بالخصوص ملک کے متنازع جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی معاشی مشکلات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، پانی کی کمی سے خاندان اور برادریاں مزید دباؤ میں ہیں جس سے مظاہروں کا امکان بڑھ سکتا ہے، جب کہ مذہبی قیادت پہلے ہی اپنے جوہری عزائم پر بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے، ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا انکار کرتا ہے۔

تہران میں پانی کی صورتحال خراب ہے، مشرقی تہران میں رہنے والی مہناز کے مطابق پچھلے ہفتے پانی اچانک بند ہو گیا اور رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک نہیں آیا، وہ اور ان کے 2 بچے صرف بوتل کے پانی سے دانت صاف کر کے اور ہاتھ دھو کر گزارا کرتے رہے۔

ایران کی نیشنل واٹر اینڈ ویسٹ واٹر کمپنی نے تہران میں باضابطہ پانی کی تقسیم کی رپورٹس کو مسترد کر دیا، لیکن تصدیق کی کہ کچھ علاقوں میں رات کے وقت پانی کا پریشر کم کیا جا رہا ہے، اور کچھ اضلاع میں پانی مکمل طور پر بند ہو سکتا ہے۔

مسعود پزشکیان نے جولائی میں بھی پانی کے زیادہ استعمال سے خبردار کیا تھا، جب متعلقہ حکام نے کہا تھا کہ تہران کے 70 فیصد رہائشی روزانہ معیاری 130 لیٹر سے زیادہ پانی استعمال کر رہے ہیں۔

ایران میں گزشتہ برسوں میں بلند مانگ کے دوران بجلی، گیس اور پانی کی کمی معمول رہی ہے، تہران کے پانی کے شعبے کے عہدیدار بہزاد پارسا کے مطابق تہران کے ذخائر جو کبھی تقریباً 500 ملین مکعب میٹر پانی ذخیرہ کر سکتے تھے، اب صرف 250 ملین پر ہیں، یعنی آدھی کمی، اور موجودہ استعمال کی شرح پر یہ دو ہفتوں میں ختم ہو سکتے ہیں۔

پورے ملک میں 19 بڑے ڈیم (ایران کے کل ڈیموں کا تقریباً 10 فیصد) مؤثر طور پر خشک ہو چکے ہیں، ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں 40 لاکھ آبادی کے لیے پانی کے ذخائر 3 فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں، مقامی شہری رضا نے کہا کہ پانی کا دباؤ اتنا کم ہے کہ دن کے وقت پانی دستیاب نہیں ہے، اور یہ بدانتظامی کی وجہ سے ہے۔

یہ بحران ریکارڈ توڑ درجہ حرارت اور بجلی کے مسلسل بند ہونے کے بعد سامنے آیا ہے، جولائی اور اگست میں حکومت نے پانی اور توانائی کی بچت کے لیے ہنگامی تعطیلات کا اعلان کیا، بعض عوامی عمارتیں اور بینک بند کر دیے کیونکہ کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا تھا۔

حکام کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نے مسئلے کو مزید سنگین کر دیا ہے، کیونکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے بخارات اور زیر زمین پانی کی کمی تیز ہو گئی ہے۔

کچھ اخبارات نے حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں پر تنقید کی، ان میں غیر اہل افراد کی تعیناتی اور وسائل کے انتظام میں سیاست کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، لیکن حکومت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

الہامی مدد کی اپیلیں بھی دوبارہ سامنے آئی ہیں، تہران کے سٹی کونسل کے سربراہ مہدی چمران نے ریاستی میڈیا کو بتایا کہ ’ماضی میں لوگ بارش کے لیے صحراؤں میں جاتے تھے، شاید ہمیں اس روایت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘۔

حکام عارضی اقدامات کر رہے ہیں تاکہ موجودہ وسائل کو محفوظ رکھا جا سکے، جیسے بعض علاقوں میں پانی کے دباؤ کو کم اور تہران کو دیگر ذخائر سے پانی منتقل کیا جارہا ہے، تاہم یہ صرف وقتی حل ہیں، اور عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے پانی کے ذخیرہ کرنے والے ٹینک، پمپ اور دیگر آلات نصب کریں۔

اصفہان کی ایک یونیورسٹی استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’بہت کم اور بہت تاخیر سے، وہ صرف وعدے کرتے ہیں لیکن ہم کوئی عملی اقدام نہیں دیکھتے، یہ زیادہ تر تجاویز عملی نہیں ہیں‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے