ایشیائی ملک سنگاپور جہاں عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں 97 فیصد میں سزائیں سنائی جاتی ہیں، وہاں فسلطین کے حق میں مظاہرہ نکالنے کے الزامات کا سامنا کرنے والی تین مسلمان خواتین کو عدالت نے بری کردیا۔
برطانوی اخبار کے مطابق سنگاپور کی عدالت نے کوکلا انندمالی، سیتی امیرا محمد اسراوی اور محمد سوبِکُن کو عدم شواہد کی بناد پر بری کردیا اور کہا کہ وکلا ان کے خلاف الزامات ثابت نہ کر سکے۔
تینوں خواتین کو ایک غیر منظور شدہ فلسطین کے حق میں نکالے گئے مارچ کے منتظمین ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا لیکن عدالت نے حیران کن طور پر انہیں بری کر دیا۔
فروری 2024 میں تقریبا 70 افراد نے فلسطین کے حق میں ایک پرامن مارچ نکالاا تھا، جو سنگاپور کی مرکزی شاہراہ سے شروع ہوا اور صدراتی محل پر ختم ہوا تھا۔
مذکورہ مارچ کا مقصد فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا مطالبہ تھا۔
شرکاء نے تربوز نما امبرالے (جو فلسطینی پرچم کے رنگوں کی علامت ہیں) بھی اٹھائے تھے۔
مذکورہ مارچ کے ضمن میں تینوں خواتین کو جون 2024 میں اجازت کے بغیر عوامی جلوس منعقد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ان پر الزام تھا کہ ان کی سربراہی میں نکالا گیا مارچ ایسے علاقے سے گزرا جہاں عوامی جلوس ممنوع تھے۔
تینوں خواتین پر گزشتہ ڈیڑھ سال سے مقدمہ زیر سماعت تھا اور ہر کسی کا خیال تھا کہ انہیں سزا ہوگی اور خود خواتین بھی ذہنی طور پر تیار تھیں کہ انہیں سزا سنائی جائے گی لیکن عدالت نے ان کے برعکس فیصلہ دیا۔
عدالت نے 21 اکتوبر 2025 کو تینوں کو بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے دلیل دی کہ حکومتی وکیل یہ ثابت نہیں کرسکے کہ تینوں خواتین ’جان بوجھ کر ممنوع علاقے‘ کا شعور رکھنے کے باوجود وہاں سے گزرے اور یہ کہ مذکورہ علاقے کی حد بندی بھھی واضح نہیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد الزام میں گرفتار کی گئی تین میں سے ایک خاتون کوکیلا انندمالی نے کہا کہ انہیں یقین تھا کہ انہیں سزا سنائی جائے گی اور وہ ایک بیان تیار کرچکی تھیں جس میں وہ ’سسٹم کی خامیوں‘ کا ذکر کرنے والی تھیں لیکن رہائی کے حکم پر وہ بھی حیران ہوئیں۔
خواتین کو عدالت کی جانب سے رہا کرنے کے حکم کے بعد زیادہ تر ماہرین نے فیصلے کو چھوٹا لیکن اہم قدم قرار دیا ہے، خاص طور پر ایسی ریاست میں جہاں احتجاج کی آزادی سخت ضابطوں کے تحت ہے اور سنگاپور میں عدالتوں کی مجرم ٹھہرانے کی شرح تقریباً 97 فیصد ہے۔
تاہم بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مذکورہ فیصلہ نظامی تبدیلی کا عندیہ نہیں بلکہ قانونی تکنیکی بنیاد پر لیا گیا اور یہ حکومتی پالیسی میں بڑی نرمی کا ثبوت نہیں دیتا۔
