سینیٹ کا اجلاس شروع ہوگیا جس میں 27 ویں آئینی ترمیم پر اظہار خیال کیا جارہا ہے۔
چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کے زیر صدارت ایوان بالا کا اجلاس جاری ہے، آج کا اجلاس یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ منعقد ہوا ہے جس میں آئین میں 27ویں ترمیم کے بل پر غور کیا جائے گا۔
26 صفحات پر مشتمل آئین (ستائیسویں ترمیم) ایکٹ 2025 کل سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا، جب کہ اپوزیشن نے مجوزہ ترامیم کی رفتار اور دائرہ کار پر شدید اعتراضات کیے۔ یہ بل وفاقی کابینہ سے منظوری کے چند گھنٹے بعد ایوانِ بالا میں پیش کیا گیا۔
سینیٹ کے چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں، جس کا آغاز علامہ اقبال کی یومِ پیدائش کے موقع پر اُن کی یاد میں ہوا۔
27ویں ترمیم پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین ریاست اور عوام کے درمیان ایک معاہدہ ہے، جس کی اپنی ایک ”روح“ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا عہد ہے جس کے تحت ہر شہری، خواہ وہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہو، قانون کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا، ”جب آپ آئین میں کوئی تبدیلی کرتے ہیں تو یہ ایسے ہے جیسے کسی عمارت کی بنیاد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں، اور اگر کوئی غلطی ہو جائے تو پوری عمارت منہدم ہو سکتی ہے۔“
انہوں نے یاد دلایا کہ دو آمر حکمرانوں نے 1973 کے آئین میں ترامیم کیں جنہوں نے اسے ”توڑ دیا“، تاہم اُن ترامیم کو بھی منظور ہونے میں ”کافی وقت لگا“۔ اُن کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے 2010 میں آئین کی ”اصل روح“ کو بحال کیا گیا۔
پی ٹی آئی سینیٹر نے مزید کہا کہ 1973 کے آئین کی پانچ بنیادی نکات ہیں جنہیں اب 27ویں ترمیم کے ذریعے ”کمزور“ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پہلا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے جس میں صوبوں کو خودمختاری حاصل ہے۔ دوسرا یہ کہ منتخب پارلیمان کو اختیار حاصل ہے لیکن وہ آئین کی پابند ہے۔ تیسرا، بنیادی حقوق ہیں جن کے تحفظ اور نفاذ کے لیے عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چوتھا ستون ایک آزاد عدلیہ ہے جو عوام کے حقوق اور جمہوریت کی ضمانت دیتی ہے اور پانچواں، سویلین بالادستی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا، ”اگر آپ ان پانچ ستونوں کے توازن میں معمولی سی تبدیلی بھی کرتے ہیں تو پورا آئین ہل سکتا ہے اور بڑے انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔“
اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے ارکانِ سینیٹ نے اپنی نشستوں پر اپنی پارٹی کے بانی عمران خان کی تصاویر رکھیں۔ اجلاس کے آغاز میں ایک پی ٹی آئی رہنما نے اعتراض اٹھایا، جس پر چیئرمین گیلانی نے جواب دیا کہ اُن کے گزشتہ روز کے فیصلے کے مطابق، سینیٹر اپنی شکایت سینیٹ چیئرمین کے دفتر میں جمع کرا سکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایڈووکیٹ علی ظفر نے صرف “تصویر کا ایک رخ” پیش کیا، “جو انہیں پسند ہے”۔ پرویز رشید نے کہا کہ علی ظفر نے ماضی میں عدلیہ کو “ایک سیاسی جماعت کے آلے میں تبدیل کرنے کی کوششوں” کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رکنِ پارلیمان نے کہا کہ اپوزیشن بنچوں کے ارکان نے مجوزہ ترمیم کے صرف ایک پہلو پر بات کی ہے، جو عدلیہ سے متعلق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اسے اس بات کا اقرار سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن نے مجوزہ ترمیم کی باقی تمام شقوں کو تسلیم کر لیا ہے۔
پرویز رشید نے یہ بھی کہا کہ انہیں خوشی ہوتی اگر اپوزیشن اراکین قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے تاکہ ان کی آراء کمیٹی کی رپورٹس میں شامل ہوتیں اور پھر ایوان میں ان پر بحث ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ “کچھ افراد نے اپنے ججوں کے لبادوں کے نیچے ایک سیاسی جماعت کا جھنڈا چھپا رکھا تھا”، اور سینیٹر حمید خان کی اس بات پر تعریف کی کہ انہوں نے بعض عدالتی فیصلوں کی متنازع نوعیت کو تسلیم کیا۔
پرویز رشید نے کہا، “میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں بدلہ لینا ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ عدالتی نظام میں کچھ بہتری لائی جائے۔” انہوں نے پی ٹی آئی پر “دھرنوں کی سیاست کو فروغ دینے” پر تنقید بھی کی۔
دریں اثنا، پیپلز پارٹی کے سینیٹر سید مسرور احسن نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین “الجھن کا شکار ہیں”، جس پر اپوزیشن بنچوں سے شور شرابہ شروع ہو گیا۔
انہوں نے بظاہر آرٹیکل 243 میں مجوزہ تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، پرویز رشید کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی “اصل معاملات پر خاموش” ہے، “جس کا مطلب ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے”۔
اپنی پُرجوش تقریر میں مسرور احسن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے رہنماؤں کی “لاشیں دیکھی ہیں”، جن میں سابق صدر ذوالفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، شہنواز بھٹو اور نصرت بھٹو شامل ہیں۔
انہوں نے پی ٹی آئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، “آپ پارلیمنٹ میں ہیں، آپ سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، آپ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ قانون سازی کے لیے تیار ہیں، مگر بات کسی اور سے کرنے کو آمادہ ہیں۔”
پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے یہ بھی کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں بھی اسی طرح حصہ لے، جیسے وہ سینیٹ کے اجلاسوں میں لے رہی ہے۔
سینیٹر اعظم سواتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم آئین اور قانون کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کرنے جا رہے ہیں، یہ کالا بل ہے، یہ بل عجلت میں بنا ہے ، یہ قومی مفاد میں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا جنازہ نکل رہا ہے، اب عدلیہ نہیں کہ سکتی کہ وہ آزاد ہو گی، ہم اب کہاں داد رسی کے لیے جائیں گے۔
سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ آپ ایک دن کہیں گے ہم نے بہت بڑی غلطی کی، یہ نہیں کہ بار بار ایوان کو کھلواڑ بنا کر آئین کی روح کو تباہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اب نئی عدلیہ کی باڈی تخلیق پائے گی، میں آئینی ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہوں۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اس آئینی ترمیم کی کس بات کی اتنی جلدی ہے،کیا آئینی ترمیم پر بحث ضروری نہیں، اب تو اس ترمیم پر ایوان میں بحث کی گنجائش ہی نہیں ، اجازت ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے موقع پر اپوزیشن لیڈر نہیں ، یہ کس جمہوریت کی نشاندہی کرتا ہے، چھبیسویں آئینی ترمیم عجلت میں کی اور اس میں خامیاں رہ گئیں، اج پھر ہم عجلت میں آئین جو تبدیل کر رہے ہیں، اتنی جلدی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا ہم آئینی ترمیم میں عدلیہ کو مضبوط بنا رہے ہیں ؟ یا اسے کمزور سے کمزور تر کر رہے ، ہمیں مضبوط فوج ، صحت اور تعلیم اور معیشت چاہیے، ہم میثاق معیشت تو کر سکتے ہیں
ہم ادارے کو جاکر حقائق بتا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم میں وہ ہمت پیدا ہو جائے تو ملک ترقی کرے گا، عجلت نہ کریں، جو اچھی ترامیم ہوں گی ہم اپ کے ساتھ بیٹھ کر مانیں گے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہماری تجاویز پر ہمارے ساتھ بیٹھا جائے لیکن ہم بلڈوز کے عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔
سینیٹر دنیش کمار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ترمیم لائیں کہ غیر مسلم بھی صدر پاکستان اور وزیراعظم بن سکے، ایسی ترامیم ہونی چاہیئں کہ سینیٹر وزیراعظم بن سکے
ترامیم لائیں کہ بجٹ بھی سینیٹ سے منظور کرایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو کیوں دیوار سے لگایا جاتا ہے، میں ہندو ہوں مجھے کافر کیوں کہا جاتا ہے،
میں بھی داتا دربار اور سیہون شریف جاتا ہوں ۔
دریں اثنا سینیٹ میں شیری رحمٰن نے اقبال ڈے کی نسبت سے قرارداد پیش جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ مفکر، فلسفہ دان علامہ اقبال کو ہاؤس خراج تحسین پیش کرتا ہے، اقبال نے جہدوجہد، مساوات اور برابری کا پیغام دیا ہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ اقبال نے نوجوان نسل کو خودی، اور خود شناسی کا پیغام دیا ہے۔
سینیٹر سرمد علی نے کہا کہ ہم واقعی اس شخص کے جیل سے باہر نکلنے پر خوفزدہ ہیں ، اس شخض نے جتنا ملک کو نقصان پہنچایا ، وہ باہر آ کر ملک کو مزید تباہ کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت میثاق جمہوریت کا حصہ تھی جس کی عمران خان نے تائید کی تھی، پیپلز پارٹی نے ہر منشور میں آئینی عدالت کی بات کی، ان ترامیم سے پارلیمنٹ کا کردار مضبوط ہو رہا ہے، اس ترمیم سے عدلیہ کمزور نہیں ہو رہی۔
انہوں نے کہا کہ اس عدلیہ نے ملک کے وزیر اعظم کو پھانسی دی، انھیں نااہل کرکے گھر بھیج دیا، منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا مسئلہ آئینی عدالت نہیں، ان کا مسئلہ ہے کہ کہیں ان کی پسند کے جج آئینی عدالت میں نہ ہوں، اگر ان کی پسند کے جج آئینی کورٹ میں آجائیں تو یہ بہت خوش ہوں گے۔
سینیٹر سرمد علی نے کہا کہ آپ ہم سے بات کرنا نہیں چاہتے، آپ ان سے بات کرنا چاہتے ہیں جو آپ سے بات کرنا نہیں چاہتے، آپ کو بعد میں سیاستدانوں سے ہی بات کرنی ہے۔
سینیٹ اجلاس کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
