کراچی: نجی ہسپتال میں پیدائش کے بعد ’بل کی عدم ادائیگی‘ پر نوزائیدہ بچہ فروخت، مقدمہ درج

ملیر میں واقع نجی طبی مرکز کی لیڈی ڈاکٹر سمیت 2 خواتین ملازمین کے خلاف انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، کیوں کہ وہ ایک نوزائیدہ بچے کو اس کے والدین کی عدم استطاعت کے باعث ہسپتال کے اخراجات ادا نہ کرنے پر اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔

پولیس کے مطابق، بچے کو بعد ازاں پنجاب میں کسی شخص کو فروخت کر دیا گیا تھا، اب بچے کو بازیاب کرا کے والدین کے حوالے کر دیا گیا ہے، جب کہ متعلقہ طبی مرکز کو سیل کر دیا گیا ہے۔

یکم نومبر کو نوزائیدہ بچے کے والد سارنگ خان نے میمن گوٹھ پولیس اسٹیشن میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ایکٹ 2018 کی دفعات 3، 4 اور 5، اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔

میمن گوٹھ پولیس کے افسر فیاض جوکھیو نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ بچہ لاہور سے بازیاب کرایا گیا ہے، نامزد ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق سارنگ خان نے پولیس کو بتایا کہ وہ نوری آباد کے گاؤں کے رہائشی اور پیشے کے لحاظ سے مزدور ہیں، ان کی بیوی (ماہین) حاملہ تھی، اور تقریباً 3 سے 4 ماہ قبل ان کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہونے کے بعد وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی تھی۔

5 اکتوبر کو، ماہین کی والدہ مسز شہناز اسے زچگی کے لیے مراد میمن گوٹھ کے ایک نجی کلینک لے گئیں، طبی معائنے کے بعد ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا اور مطلوبہ رقم ادا کرنے کو کہا۔

جب مسز شہناز نے بتایا کہ وہ غریب ہیں، اور آپریشن کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتیں، تو ڈاکٹر نے مبینہ طور پر انہیں ایک ایسی خاتون کے بارے میں بتایا جو ’غریبوں کی مدد کرتی ہے اور ان کے بچوں کو گود لیتی ہے‘، اور ساتھ ہی طبی اخراجات بھی ادا کرتی ہے۔

مدعی نے دعویٰ کیا کہ اس کی بیوی اور ساس نے اس تجویز سے اتفاق کیا، اور نوزائیدہ لڑکے کو اس خاتون کے حوالے کر دیا گیا، جو بعد میں اسی طبی مرکز کی ایک اور ملازمہ نکلی۔

مدعی نے بتایا کہ اس کی بیوی اور ساس نے اس واقعے کو اس سے چھپائے رکھا، تاہم اسے رشتہ داروں سے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے بیٹے سے نوازا ہے، مگر اسے ہسپتال میں گود دینے کے بہانے کسی اور کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے