وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا وفاق سے 550 ارب روپے کی ادائیگی، این ایف سی اجلاس بلانے کا مطالبہ

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی حکومت صوبے کی 550 ارب روپے کی مقروض ہے، انہوں نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کا اجلاس بھی فوراً بلانے کا مطالبہ کر دیا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے ضلع خیبر میں ایک جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کے بعد ملک ہماری مرضی کے بغیر غیر ملکی جنگ میں شامل ہوا، کہا گیا کہ پاکستان کو قربانیوں کی ضرورت ہے، پاکستان کے لیے ہم نے اپنے گھر بار چھوڑے۔

یہاں ڈرون حملے اور فوجی آپریشنز شروع ہوئے، انہوں نے مجمع سے کہا کہ ’ہمیں قربانی کا بکرا بنایا گیا‘، ہمارے گھر، بازار اور مساجد تباہ ہوئیں، پھر بھی ہم نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں‘۔

انہوں نے خبردار کیا کہ صوبے کے قبائلی اضلاع میں کسی نئے فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا تو عوام کو دوبارہ قربانی کا بکرا نہیں بننے دیں گے۔

سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے 2018 میں دعویٰ کیا تھا کہ ضلع خیبر اور دیگر قبائلی علاقے شدت پسندوں سے پاک کر دیے گئے ہیں، تاہم اب دوبارہ نئے فوجی آپریشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

نومنتخب وزیراعلیٰ نے کہا کہ خیبرپختونخوا ریاست کے ساتھ امن کے معاملے میں کھڑی ہے، لیکن کسی بھی صورت میں ہم بے گناہ جانوں کے نقصان کی حمایت نہیں کریں گے، اگر اس بار کسی معصوم کی جان گئی تو احتساب کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ آفریدی نے مطالبہ کیا کہ مستقبل میں خطے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ صوبائی حکومت اور خیبرپختونخوا کے منتخب نمائندوں کی مشاورت کے بغیر نہ کیا جائے، انہوں نے ’بند کمروں میں کیے گئے فیصلوں‘ کو بھی مسترد کیا۔

جرگے سے قبل وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس ہوا، وزیراعلیٰ کے پریس سیکرٹری صاحبزادہ حسن کے جاری کردہ بیان کے مطابق اجلاس میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان، وزیراعلیٰ سہیل آفریدی، صوبائی صدر جنید اکبر، اسد قیصر اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔

دوران اجلاس صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی غور اور فیصلہ کیا گیا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں امن جرگہ بلایا جائے گا، جس میں سابق وزرائے اعلیٰ، گورنرز، علما، جرگہ عمائدین، سول سوسائٹی، وکلا اور دیگر اہم شخصیات کو مدعو کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا، امن جرگے کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے اور پائیدار امن کے لیے ایک متحدہ حکمتِ عملی ترتیب دینا ہے، اجلاس کے شرکا نے پولیس کی قربانیوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔

وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نےکہا کہ صوبائی حکومت پولیس فورس کے ساتھ کھڑی ہے، پولیس کو جدید آلات، تربیت اور وسائل کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اُس وقت تیزی دیکھنے میں آئی جب نومبر 2022 میں کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے ریاست کے ساتھ طے شدہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا۔

رواں ہفتے وزیراعلیٰ آفریدی نے دعویٰ کیا تھا کہ صوبے میں دہشت گردی کی نئی لہر وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، 2013 سے صوبے میں برسرِ اقتدار پی ٹی آئی فوجی آپریشنز کی مخالفت کرتی رہی ہے، جبکہ قبائلی عوام بھی اکثر بے گھر ہونے کے سبب ان آپریشنز کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

اگرچہ وفاقی حکومت نے اگست میں نئے آپریشن کی تردید کی تھی، مگر نیشنل ایکشن پلان کے تحت انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں اب بھی جاری ہیں، خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک نئے فوجی آپریشن کا امکان ہے، جس کی وجہ سے مقامی افراد نے نقل مکانی شروع کر دی ہے، جبکہ ضلع باجوڑ کی تحصیل وار ماموند میں ٹارگٹڈ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے