بھارت نے چینی پروفیشنلز کو بزنس ویزے تیزی سے جاری کرنے کے لیے سرکاری رکاوٹیں ختم کر دیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکام کے مطابق یہ قدم دونوں ایشیائی طاقتوں کے تعلقات بہتر کرنے اور تکنیکی ماہرین کی کمی کے باعث ہونے والے اربوں ڈالر کے نقصان کو روکنے کی کوشش کا حصہ ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی محصولات کے دباؤ کے باوجود چین کے ساتھ تعلقات کو احتیاط سے بحال کرنا شروع کیا ہے۔ حکام کے مطابق نئی دہلی نے ویزوں کی منظوری کے عمل سے ایک پورا بیوروکریٹک مرحلہ نکال دیا ہے، اور اب ویزے ایک ماہ سے بھی کم وقت میں جاری ہو رہے ہیں۔
دونوں طرف کے حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرف پر برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات چیت میں اس پیش رفت کی تصدیق کی۔
واضح رہے کہ 2020 میں ہمالیائی سرحد پر جھڑپ کے بعد بھارت نے چینی شہریوں کے تقریباً تمام دورے روک دیے تھے اور بزنس ویزوں کی جانچ کو بھی سخت کر دیا تھا۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ ویزوں سے متعلق مسائل اب “مکمل طور پر حل ہو چکے ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ “ہم نے انتظامی جانچ کا وہ اضافی مرحلہ ختم کر دیا ہے اور بزنس ویزے چار ہفتوں کے اندر اندر نمٹا رہے ہیں۔”
بھارت کی وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، وزارتِ تجارت، وزیراعظم آفس اور ملکی پالیسی تھنک ٹینک نے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
اس پیش رفت کے بعد چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ اس نے بھارت کی جانب سے “مثبت اقدام” کا نوٹس لیا ہے، جو دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان روابط کے فروغ کے لیے اہم ہے۔
ترجمان گُو جیاکُن نے کہا کہ چین بھارت کے ساتھ رابطے بڑھانے اور تبادلوں میں آسانی پیدا کرنے کے لیے مشاورت جاری رکھے گا۔
تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے مطابق سخت جانچ پڑتال کی وجہ سے بھارتی الیکٹرانکس انڈسٹری کو چار سال میں 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا کیونکہ موبائل فون بنانے کے لیے جو مشینری چین سے آتی ہے وہ بروقت نہ پہنچ سکی۔
گزشتہ برس رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ بڑی چینی کمپنیوں جن میں شیاؤمی بھی شامل ہے کو اپنے عملے کے ویزوں کے حصول میں شدید مشکلات پیش آئیں۔
انڈسٹری کے عہدیداروں نے کہا کہ ویزا پابندیوں نے نہ صرف الیکٹرانکس انڈسٹری بلکہ شمسی توانائی کے شعبے کو بھی متاثر کیا، جہاں مہارت رکھنے والا عملہ نہ ملنے سے کام رکا۔
سرکاری رکاوٹیں دور کرنے کا اعلان مودی کے سات سال بعد چین کے حالیہ دورے کے فوراً بعد سامنے آیا، جہاں انہوں نے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کرکے تعلقات بہتر بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔
بعد ازاں دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست پروازیں بھی بحال ہو گئیں، جو 2020 سے معطل تھیں۔
رکاوٹیں ختم کرنے کی سفارش ایک اعلیٰ سطح کمیٹی نے کی تھی جس کی سربراہی سابق کابینہ سیکریٹری راجیو گوبا کر رہے تھے، جو اب سرکاری تھنک ٹینک کے رکن ہیں۔ کمیٹی نے چین کے لیے سرمایہ کاری کی پابندیوں میں نرمی کی بھی تجویز دی ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کیا جا سکے۔
انڈین سیلولر اینڈ الیکٹرانکس ایسوسی ایشن کے سربراہ پنکج موہنڈرو نے کہا کہ “ہم حکومت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ سرحدی ممالک کے ماہرین کے لیے ویزا منظوری کا عمل تیز کیا جائے۔ یہ تعاون کی علامت ہے اور ہماری سفارشات کو قبول کرنے کا ثبوت بھی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب بھارت مختلف مصنوعات مکمل تیار کردہ پروڈکٹ سے لے کر پرزہ جات تک کی تیاری میں رفتار بڑھا رہا ہے۔
امریکا کی ٹیرف پالیسی کے بعد چین سے تعلقات میں گرم جوشی
بھارت اور چین کے تعلقات میں یہ بہتری اُس وقت سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کر دیا، جبکہ روسی تیل خریدنے پر اضافی 25 فیصد ٹیکس لگایا گیا۔
اس کے بعد بھارت نے اپنی سفارتی حکمتِ عملی دوبارہ ترتیب دی، چین کے ساتھ تعلقات بہتر کیے، روس سے تعاون بڑھایا اور واشنگٹن کے ساتھ ٹریڈ ڈیل پر بات چیت جاری رکھی۔
مودی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بنانے پر توجہ دے رہی ہے، جس میں چین کے ساتھ کاروبار کو آسان بنانا بھی شامل ہے۔
بھارت نے کچھ عرصہ پہلے ہی کنزمپشن ٹیکس اور لیبر قوانین میں نرمی کی، تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکے۔
دوسرے اہلکار نے آخر میں بتایا کہ“ہم چین سے متعلق کچھ پابندیاں محتاط انداز میں نرم کر رہے ہیں، اور امید ہے کہ اس سے مجموعی کاروباری ماحول بہتر ہوگا۔”
