فیض حمید کو سزا، بانی پی ٹی آئی بھی تیاری پکڑیں!

  1. 11 دسمبر 2025 کی پاکستان میں سب سے بڑی خبر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ملنی والی 14سال قید بامشقت کی تھی جو ان کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، ریاست کی سلامتی اور مفاد کے منافی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور افراد کو نقصان پہنچانے جیسے الزام کے ثابت ہونے پر سنائی گئی اور سزا کا اطلاق بھی 11 دسمبر2025 سے ہی تصور ہوگا ۔ آج ﷲ کی طرف سے فیض حمید کی بے انتہا طاقت، تکبر، جھوٹ اور فریب  کا بت منہ کے بل زمین پرگرانے کا بھی دن ہے۔

جھوٹ اور وعدہ خلافی کا بادشاہ، فیض حمید

فیض حمید کو جو لوگ قریب سے جانتے ہیں ان کو بخوبی علم ہوگا کہ فیض حمید جھوٹ اور وعدہ خلافی کے بادشاہ تھے، اگر کوئی ان کے ساتھ نشست میں ان سے چاند طلب کرتا تو وہ اس کو منع نہیں کرتے اور اگلے روز چاند اس کے ہاتھ میں رکھنے کا وعدہ کرکے اٹھتے جب کہ وہ اگلے دن کسی اور سے کوئی اور وعدے کررہے ہوتے تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جھوٹ شاید ان کے ڈی این اے میں شامل تھا۔

سیاسی مبصرین موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت کو ملک میں عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جب کہ اس عدم استحکام کی بنیاد فیض حمید نے 2018 میں اس وقت کے الیکشنز میں آر ٹی ایس سسٹم فیل کرکے دھڑلے سے دھاندلی کی اور پورے ملک میں پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ سیٹیں دلا کر ملک پر مسلط کیا، کراچی میں 14 نشستیں پی ٹی آئی کو دلائی گئیں۔

پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار مایوس ہوکر گھروں کو جاکر سوگئے تھے، ان کو اٹھا کر یہ ناقابل یقین خبر سنائی گئی کہ آپ جیت گئے ہیں۔ یہی نہیں پی ٹی آئی کو جتوانے اور اس کو طاقتور بنانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا اور مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لئے اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔

فیض حمید وقت کے ساتھ اس قدر طاقتور ہوگئے تھے کہ بیک وقت وہ ڈی جی آئی ایس آئی، وزیراعظم اور آرمی چیف بھی بنے ہوئے تھے۔ مطلب وہ جو چاہتے تھے کربھی لیتے تھے اور کروا بھی لیتے تھے۔

سیاسی مداخلت، تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے

فیض حمید نے ماضی میں پاکستان کی سیاسی مداخلتوں اور سیاست کے نام پر دہشت گردی کی بنیاد رکھنے میں تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔

فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کو ختم کرانے کے لیے کئے جانے والے معاہدے پر فیض حمید نے بطور ضامن ڈی جی سی آئی ایس آئی دستخط کرکے فوج کو سیاست میں پھنسانے کی وہ بنیاد ڈالی جس کا خمیازہ فوج آج بھی بھگت رہی ہے۔

فیض حمید نے ایک سیاسی معاہدے پر دستخط کرکے فوج کے سیاسی ہونے کا دستاویزی ثبوت فوج دشمنوں کے ہاتھ میں دے دیا تھا اور یہ اپنی نوعیت کاپہلا واقعہ تھا جب ایک ڈی جی سی ایک سیاسی معاہدے کا ضامن بنا اور ایک فوجی افسر نے کھلے عام دھرنے کے شرکاء میں پیسے تقسیم کئے، فیض حمید کے فوج کو لگائے گئے اس زخم کو بھرنے میں بھی دہائیاں لگیں گی۔

مریم نواز کی گرفتاری میں اندھی طاقت کا استعمال

کراچی میں مریم نواز کو ان کے ہوٹل میں کمرے کا دروازہ توڑ کر گرفتار کرنے کے لئے فیض حمید نے جس فرعونیت اور اندھی طاقت کا استعمال کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ انہوں نے نہ مریم نواز شریف کو بخشا، نہ پولیس کو چھوڑا، نہ آئی جی سندھ کو اور نہ ہی مقامی انتظامیہ کو چھوڑا اور جو بھی راستے میں آیا اس کو روند ڈالا۔

یہ واقعہ بھی ہمارے تاریخ کا سیاہ باب ہے کہ مریم نواز شریف کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لئے فیض حمید نے آئی جی سندھ مشتاق مہر کو ان کی رہائش گاہ سے اغوا کراکے حبس بے جا میں رکھا اور بندوق کی نوک پر مریم نواز شریف اور ان کے شوہر پر  مقدمہ درج کرایا۔

فیض حمید کی بدمعاشی پر آئی جی سندھ مستعفی

فیض حمید کی اس بدمعاشی پر آئی جی سندھ مشتاق مہر ہی نہیں بلکہ متعدد اعلیٰ پولیس افسران مستعفی ہوگئے جس پر حکومت سندھ نے ایک طوفان کھڑا کردیا اوراس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کراچی کے سابق کور کمانڈر جنرل ہمایوں عزیز کو انکوائری کا حکم دیا جس کے بعد آئی ایس آئی اور رینجرز کے اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی ہوئی تاہم فیض حمید کو بچالیا گیا جب کہ یہ تمام کارروائی فیض حمید کے حکم پر ہی کی گئی تھی مگر فیض حمید تو تھے ہی جھوٹ اور وعدہ خلافی کے بادشاہ۔

فیض حمید نے ان افسران کو سپورٹ کرنے کی یقین دہانی پر اندھا دھند کارروائی کروائی اور بعد ازاں ان کو قربانی کا بکرا بناکر صاف بچ نکلے کیونکہ ان کو اس وقت کے وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی، کیا اس سیاسی مداخلت کی سزا فیض حمید کو نہیں ملنی چاہئے؟

امریکا کے افغانستان سے انخلاء اور طالبان کی واپسی کا جھوٹا کریڈٹ لینے اور فوج کو افغان معاملات میں زبردستی ملوث کرنے کے لیے افغانستان پہنچ کر چائے پیتے ہوئے تصویر بنوانا اور کہنا سب کچھ صحیح ہوجائے گا کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج افغانستان بھارت سے مل کر پاکستان میں دہشت گردی کرارہا ہے۔

بتانے والے بتاتے ہیں کہ وہ تصویر فیض حمید کی فرمائش پر بنوا کر جاری کی گئی اور اس وقت افغانستان کے حالات کو کور کرنے والے میڈیا کو دعوت دے کر بلایا گیا اور جب موصوف کور کمانڈر پشاور بنے تو ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان سے لا کر صوبہ خیبر پختونخواہ میں آباد کیا گیا اور محفوظ اسپیس دیا گیا جو آج پاکستان میں خود کش حملے کرکے معصوم شہریوں کو بالعموم اور فوج افسران ، جوانوں اور فوجی تنصیبات کو بالخصوص نشانہ بنارہے ہیں۔

عدلیہ میں مداخلت کے گناہوں کی فہرست طویل

فیض حمید کے عدلیہ میں مداخلت کے  گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئرجج شوکت صدیقی کو فون کال کے ذریعے حکم دیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے جو بھی کیسز آئیں ان میں ان کو سزائیں سنائی جائیں۔

جب شوکت صدیقی نے میرٹ پر فیصلے کرنے کی بات کی تو فیض حمید نے کہا کہ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو ہماری برسوں کی سرمایہ کاری ضائع ہوجائے گی۔ موصوف یہ سرمایہ کاری بانی پی ٹی آئی پر مستقبل کے پتا نہیں کتنے سالوں کے لئے کررہے تھے، پھر اس وقت کے سپریم کورٹ کے متوقع چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کی اہلیہ کے خلاف ریفرنس بنوائے مگر وہاں بھی فیض حمید کو اگرچہ منہ کی کھانی پڑی مگر عدلیہ میں فوج کو گھسیٹ کر ایک بار پھر فوج دشمنی کا ثبوت دیا اور وہ یہ سب اپنا اور بانی پی ٹی آئی کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے کررہے تھے۔

9 مئی کا ملزم

بانی پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد ان کی گرفتاری پر 9 مئی کی پلاننگ جس منظم انداز میں کی گئی وہ کسی فوجی افسر کا کارنامہ ہی لگتی ہے اور وہ فوجی افسر فیض حمید کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ اس منصوبہ بندی کے تحت تمام فوجی اور حساس تنصیبات پر منظم حملے کیے گیے شہداء کی یاد گار کی بے حرمتی کی گئی یعنی وہ کردکھایا جس کا خواب بھارت نہ جانے کب سے دیکھ رہا تھا۔

بانی پی ٹی آئی اور فیض حمید اس تصور میں تھے کہ آج فوج میں بغاوت ہوگی (خدانخواستہ) اور فیض حمید فوج کی کمان سنبھال لے گا، بانی پی ٹی آئی رہا ہوجائے گا اور پھر پاکستان پر پی ٹی آئی کا راج ہوگا مگر اس کا یہ مکروہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور اس کو منہ کی کھانی پڑی۔ ابھی فیض حمید کو 9 مئی کی دہشت گردی کا بھی جواب دینا ہے، ابھی تو اس کو فوجی تنصیبات پر حملوں اور شہداء کی بے حرمتی کی سزا بھی ملنی ہے، فیض حمید کے لئے تو پارٹی اب شروع ہوئی ہے۔

پی ٹی آئی میں ضم ہونے کے لیے مصطفیٰ کمال پر دباؤ

کراچی میں 2018 کے الیکشنز میں پی ٹی آئی کو دھاندلی کی 14 سیٹیں دلانے کے باوجود بانی پی ٹی آئی جگہ نہیں بنا پایا تو فیض حمید نے 2019 میں پی ایس پی کے مصطفی کمال پر دباؤ ڈالا کہ اپنی پارٹی کو پی ٹی آئی میں ضم کردو جس کے لئے بڑے عہدوں اور سیاسی فوائد کا لالچ بھی دیا گیا جس کے گواہ اس وقت کے گورنر عمران اسماعیل ہیں۔

یہ وہی عمران اسماعیل ہے جس نے دبئی میں پی ٹی آئی اور پی ایس پی کے سیاسی اتحاد کے لئے کی جانے والی ملاقات کا احوال لیک کرکے اس سیاسی اتحاد کو شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنا دیا تھا۔

اگرچہ پی ایس پی کا رکن اسمبلی تو ایک طرف بلکہ ایک کونسلر بھی نہیں تھا مگر پی ٹی آئی میں نہ کردار کے حوالے سے، نہ تنظیم سازی کے حوالے سے اور نہ کارکردگی کے حوالے سے کوئی ایک بھی شخص موجود تھا جو مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کا مقابلہ کرسکتا، لیکن یہاں بھی فیض حمید کو منہ کی کھانی پڑی کیونکہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے جھوٹوں کے بادشاہ فیض حمید کے ارمانوں پر یہ کہہ کر گھڑوں پانی ڈال دیا کہ پارٹی بند کردیں گے لیکن پی ٹی آئی میں ضم نہیں ہوں گے۔

بانی پی ٹی آئی کو ریسکیو کرنے کے لیے فیض حمید کی انٹری

2019 اور 2020 کی طوفانی بارشوں میں کراچی کی تباہی وبربادی کے بعد جب توپوں کا رخ پیپلزپارٹی سے بانی پی ٹی آئی کی طرف ہوا تو اس کو ریسکیو کرنے فیض حمید ہی آگے بڑا اور ندی نالوں، گٹر و سڑکوں کی حالت بہتر کرنے کے لئے ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے کو پامال کرکے ان واقعات کے لئے بنائی گئی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرنی شروع کردی۔

اس دوران ملیر ندی اور لیاری ندی کے اطراف قیمتی زمینوں کی نشاندہی کرکے بلڈرز کو کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کا لالچ دیا مگر قدرت نے فیض حمید کو مہلت نہیں دی ورنہ فیض حمید لیاری ندی اور ملیر ندی کے کناروں کے زمینوں کو بھی ٹھکانے لگا دیتا۔

ملک ریاض کا خاص ملازم فیض حمید

فیض حمید کے کالے کرتوتوں کا ذکر ہو اور مفرور ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کا ذکر نہ ہو تو ایسا ہو نہیں سکتا۔ ملک ریاض کے قریبی لوگ فیض حمید کو ملک ریاض کا سب سے خاص ملازم ہی سمجھتے تھے۔

زمینوں پر قبضے، مخالفین کو خاموش کرنا اور منی لانڈرنگ سمیت ملک ریاض کے تمام ضروری معاملات کے لئے فیض حمید اپنے ادارے اور اپنے عہدے کو استعمال کرتا رہا، اگر تحقیقات کی جائیں تو ملک ریاض کی ہزاروں ارب منی لانڈرنگ کے پیچھے اس کے سب سے خاص ملازم فیض حمید کا نام ہی نکلے گا۔

یہی نہیں، یہ بھی سب کو یاد ہے کہ ملک ریاض کی بیٹی نے جب اپنے شوہر کو ایک عورت کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے پکڑا تھا تو اس نے کس ادارے کا نام لے کر کہا تھا کہ اس ادارے لوگ کہاں مرگئے جو ہمیں اطلاع نہیں دیتے۔

سپریم کورٹ کے سخت احکام کے باوجود ملک ریاض نے 460 ارب روپے کیس کے قومی خزانے میں جمع نہیں کرائے، یہ فیض حمید کا ہی کرشمہ تھا کہ ملک ریاض وہ واحد ملاقاتی تھا جو داخلی دروازے پر بغیر کسی انٹری کے بنی گالہ میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرتا تھا۔

سیاسی افراد اور فوجی افسران کے خلاف ہنی ٹریپ کا استعمال

یہ بات بھی شاید کسی کو معلوم ہو کہ فیض حمید سیاسی افراد اور فوجی افسران کو بدنام کرنے اور پھنسانے کے لئے ہنی ٹریپ کا ہتھیار استعمال کرتے تھے جس کے لئے وہ کئی جاننے والی خواتین کو استعمال کرتے تھے۔

یہ واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ فیض حمید نے سابقہ فوجی افسران، جنہوں نے ان کے کالے کرتوں میں ان کا ساتھ نہیں دیا ان کے عزیزواقارب کو جھوٹے کیسز میں پھنسایا، ابھی تو ان کا حساب بھی باقی ہے۔

سزایافتہ مجرم فیض حمید کے سیاسی، عدالتی مداخلت اور عوام دشمن کارناموں کے چند واقعات کی بدولت پاکستان آج عدم برداشت، عدم استحکام، سیاسی و عدالتی عدم استحکام، سرحدی تنازعات کا شکار ہے اور ان سب معاملات میں بانی پی ٹی آئی فیض حمید کے ساتھ برابر کا شریک جرم ہے۔

لہذا فیض حمید کے بعد اب بانی پی ٹی آئی بھی سخت سزاؤں کی تیاری کریں، فوج نے شفاف تحقیقات اور غیرجانبدار عدالتی کارروائی کے بعد اپنے انتہائی اعلیٰ افسر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرکے ملک دشمنوں اور اس ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے والے اندرونی عناصر کو دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ بچے گا کوئی نہیں!

نوٹ: مذکورہ بالا تحریر سے بول نیوز اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے