جی پی ٹی امیج، گروک اور نینو بنانا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، گوگل نے اب اپنا جدید ترین مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی امیج جنریشن ماڈل ’نینو بنانا پرو‘ (جیمینی تھری پرو امیج) جاری کر دیا ہے، اور سچ بتائیں تو نتائج اتنے حقیقی لگتے ہیں کہ حیران کن سے زیادہ خوفناک معلوم ہوتے ہیں۔
Nano Banana Pro کو ’جدید ترین امیج جنریشن اور ایڈیٹنگ ماڈل‘ قرار دیا جا رہا ہے، جو بصری ڈیزائن، عمومی معلومات اور ٹیکسٹ رینڈرنگ میں غیر معمولی کارکردگی رکھتا ہے۔
یہ تخلیقی افراد اور کاروباروں کے لیے ایک نئی دنیا کھولتا ہے، بشرطیکہ اسے ذمہ داری سے استعمال کیا جائے، لیکن اس کا جس درجے کا حقیقت جیسا نتیجہ ہے، وہ ہمارے دور میں انتہائی تشویش ناک بھی ہے۔
یہ وہی پرانا سوال پھر سے، اور اس بار کہیں زیادہ شدت سے اٹھاتا ہے کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ کیا اصل ہے اور کیا نہیں؟
ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر عمر کے لوگ آن لائن آدھی سچائیوں پر بھی یقین کر لیتے ہیں، Nano Banana Pro جیسی ٹیکنالوجی اس بحرانِ صداقت کو ایک بالکل نئی سطح پر لے جاتی ہے۔
جب اوپن اے آئی نے مارچ میں اپنا ’اب تک کا سب سے جدید امیج جنریٹر‘ متعارف کرایا تھا، جو جی پی ٹی-40 میں شامل تھا، تو ہمارے فیڈز اسٹوڈیو گھبلی اسٹائل کی اینیمیشنز سے بھر گئے تھے، جنہوں نے سنگین کاپی رائٹ اور اخلاقی سوالات کھڑے کیے تھے۔
حالیہ برسوں میں، تصویر بنانے والی اے آئی نے نہ صرف فن اور فنکاروں بلکہ عام انسان کے لیے بھی خطرات پیدا کیے ہیں، جعلی عریاں تصاویر سے لے کر کسی کے بارے میں من گھڑت دعوے کرنے تک، اے آئی کے غلط استعمال کی کوئی حد نظر نہیں آتی۔
8 نومبر کو پاک ووکلز ‘PakVocals’ نامی ایک اکاؤنٹ نے ایکس (ٹوئٹر) پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ صحافی بینظیر شاہ ایک نائٹ کلب میں ڈانس کر رہی ہیں، تاکہ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں اس ویڈیو نے 5 لاکھ سے زیادہ ویوز لے لیے تھے، بعد میں یہ ویڈیو جعلی ثابت ہوئی۔
اے آئی انٹرنیٹ پر موجود لاکھوں تصاویر سے سیکھتی ہے اور ان سے منسلک متن کو ذہن نشین کرتی ہے، ’ڈفیوژن‘ نامی عمل میں، اے آئی تصویر کو بے معنی پکسلز میں توڑتی ہے اور پھر اس عمل کو الٹ کر تصویر دوبارہ تشکیل دیتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کاپی رائٹ کا خیال نہیں رکھتی، اس لیے فنکارانہ اسلوب بھی بغیر اجازت استعمال ہوتا ہے۔
Midjourney، DALL-E، اور Canva جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے اب کوئی بھی شخص ایک ماہانہ سبسکرپشن اور انٹرنیٹ کنیکشن کے ساتھ کسی بھی فنکار کے انداز میں بغیر یہ پوچھے کہ فنکار راضی ہے یا نہیں، یا اسے کریڈٹ دیئے بغیر تصویر بنا سکتا ہے۔
فلم کی دنیا میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔
Marrakech International Film Festival میں جج کی حیثیت سے شریک اداکارہ جینا اورٹیگا (ساتھ ہی ‘Parasite’ کے ڈائریکٹر بونگ جون ہو بھی موجود تھے) نے خبردار کیا کہ سنیما میں اے آئی کی لائی ہوئی ’گہری غیر یقینی صورتحال‘ سے ڈر جانا بہت آسان ہے۔
بزفیڈ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے پینڈورا بکس کھول دیا ہے۔
کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اے آئی کبھی نقل نہیں کر سکتی، مشکل میں جو خوبصورتی ہے، غلطیوں میں جو حسن ہے، کمپیوٹر وہ نہیں کر سکتا، کمپیوٹر کی کوئی روح نہیں ہوتی۔
یہ وہ چیز نہیں جس سے ہم واقعی جڑ سکیں۔ ناظرین کے بارے میں کوئی مفروضہ قائم نہیں کرنا چاہیے، مگر امید ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب اے آئی ذہنی جنک فوڈ بن جائے گا، اور ہم بے چینی محسوس کریں گے مگر وجہ سمجھ نہیں پائیں گے، کبھی کبھار، ناظرین کو کسی چیز سے محروم ہونا پڑتا ہے تاکہ وہ اسے دوبارہ سراہ سکیں۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں ہم پہلے ہی عجیب و غریب چیزیں دیکھ رہے ہیں، بچوں کی اسکن کیئر لائنز، اے آئی سے بنی ہوئی فلمیں، ڈرائیور لیس گاڑیاں، اور سائنسی فکشن جیسی ٹیکنالوجی، کون جانتا ہے آگے کیا آنے والا ہے؟
