مقبوضہ کشمیر کے شہر سرینگر میں نوگام پولیس اسٹیشن میں گزشتہ رات ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 9 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہو گئے۔
غیر ملکی خبررساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق پولیس اسٹیشن میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر پولیس اہلکار اور فرانزک ٹیم کے ارکان شامل تھے جو ہریانہ ریاست سے ضبط کیے گئے دھماکہ خیز مواد کے بڑے ذخیرے سے نمونے حاصل کر رہے تھے۔
بھارتی وزارتِ داخلہ نے ہلاکتوں کی تصدیق کردی، جوائنٹ سیکریٹری پرشانت لوکھانڈے کا کہنا تھا کہ دھماکے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں اور دھماکے کی وجہ کے بارے میں کسی اور قسم کا اندازہ لگانا غیر ضروری ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور ڈائریکٹر جنرل پولیس نالِن پربھات نے واقعے کو حادثاتی قرار دیا ہے۔
گورنر منوج سنہا کا کہنا تھا کہ حادثاتی دھماکے کی وجہ جاننے کے لیے انکوائری کا حکم دے دیا ہے جب کہ پولیس سربراہ نے بھی زور دیا کہ اس واقعے کی وجہ کے بارے میں کوئی اور قیاس آرائی غیر ضروری ہے۔
بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق پولیس افسر نے کہا کہ برآمد شدہ مواد کی حساس اور غیر مستحکم نوعیت کے باعث نمونے اور معائنہ انتہائی احتیاط سے کیا جا رہا تھا، تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود، گزشتہ رات ایک حادثاتی دھماکا ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں پولیس اسٹیشن کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ملحقہ عمارتیں بھی متاثر ہوئی ہیں جب کہ یکے بعد دیگرے دھماکوں کے باعث بم ڈسپوزل اسکواڈ کے لیے فوری ریسکیو آپریشن شروع کرنا ممکن نہیں تھا۔
مقبوضہ کشمیر کی مقامی پولیس نے پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ کی جانب سے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے یا کسی دیگر غیر ملکی تعلق کے دعوؤں کو بھی واضح طور پر جھوٹا، بے بنیاد اور شر انگیز قرار دے کر مسترد کر دیا۔
بھارتی سرکاری خبررساں ادارے کے مطابق واقعے میں جاں بحق ہونے والوں میں فرانزک سائنس لیبارٹری کے 3 افراد، ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے 2 اہلکار، 2 پولیس فوٹوگرافر، اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی کا ایک اہلکار اور ایک درزی شامل تھا۔
حکام کا کہنا تھا کہ کم از کم 24 پولیس اہلکار اور تین شہری سرینگر کے مختلف اسپتالوں میں داخل کیے گئے۔
رائٹرز کو ایک پولیس ذریعے نے بتایا کہ کچھ لاشیں مکمل طور پر جل چکی تھیں، دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ کچھ جسمانی اعضا قریبی گھروں سے ملے، جو پولیس اسٹیشن سے تقریباً 100 سے 200 میٹر کے فاصلے پر تھے۔
واضح رہے کہ 10 نومبر کو نئی دلی کے تاریخی لال قلعہ کے قریب ہونے والے دھماکے میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے تھے۔
