وفاقی کابینہ نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی

اسلام آباد میں وزیراعظم کی ورچوئل صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی گئی، تاہم قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) میں صوبوں کے شیئر ختم کا ایجنڈا شامل نہیں کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا، وزیراعظم شہباز شریف نے باکو سے ویڈیو لنک پر اجلاس کی صدارت کی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں ترمیم پر کابینہ کو بریفنگ دی، اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کیا گیا، جس کی کابینہ نے شق وار منظوری دے دی۔

سینیٹ کا اجلاس اب سے کچھ دیر بعد شروع ہوگا، وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد آئینی ترمیم منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کر دی جائے گی۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میثاق جمہوریت کے مطابق آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کی منظوری دے دی گئی ہے، جس کے مطابق آئینی عدالت تشکیل دی جائے گی، اب پارلیمنٹ آئین میں ترمیم پر بحث کے بعد ان کی منظوری کا حتمی فیصلہ کرے گی، آئینی ترمیم آج ہی سینیٹ میں پیش کر دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ججز کی تقرری پر حال ہی میں کافی بحث سامنے آئی تھی، بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ججز کا ٹرانسفر جوڈیشل کمیشن کے سپرد کیا جائے، جس ہائی کورٹ سے جج کا ٹرانسفر ہونا ہے اور جس ہائیکورٹ میں تبادلہ ہونا ہے، دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بھی اس عمل کا حصہ ہوں گے، آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال تجویز کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات 6 سالہ مدت کے لیے ہوتے ہیں اور ہر 3 سال بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی آئینی ضرورت ہے، اس ابہام اور آئینی ایشو کو حل کرنے کے لیے کہ سینیٹ ارکان کا انتخاب ایک ہی وقت میں پورے ملک میں کروانے کی تجویز دی گئی ہے، نئی ترامیم میں اس عمل کی وضاحت کی گئی ہے، تاکہ سینیٹ کے انتخابات تعطل کا شکار نہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے صوبوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی 11 فیصد سے بڑھا کر 13 فیصد کرنے کی تجویز پر بھی پارلیمنٹ غور کرے گی، غیر منتخب کابینہ عہدیدار جن میں مشیران، معاون خصوصی وغیرہ شامل ہیں، ان کی تعداد کو بڑھانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حالیہ پاک-بھارت جنگ نے ہمیں بہت سے سبق سکھائے ہیں، جدید دور میں جنگوں کے طریقہ کار تبدیل ہوچکے ہیں، دفاعی اداروں کے اعلیٰ عہدوں کی وضاحت کی گئی ہے، نئی ترمیم کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھا گیا ہے، کہ آیا یہ ان کے ساتھ تاحیات رہنا چاہیے، اس بارے میں بھی تجویز ہے، جہاں تک مسلح افواج کی کمان کا تعلق ہے، اس کے بارے میں بھی ترامیم پارلیمنٹ کو بھیجی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترامیم منظور ہوں گی تو آئین کا حصہ بنیں گی، اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 140 اے (بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات سے متعلق) بل بھی سینیٹ میں پیش کیا تھا، وہ بل کیونکہ قائمہ کمیٹی میں زیر التو ا ہے، وزیراعظم نے مجھے ہدایت کی ہے کہ اس بل پر بھی آج بحث کی جائے اور حلیف جماعتوں کے اتفاق رائے سے اسے منظور کرایا جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک اور اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما خالد مگسی کے بلوچستان میں انتخابی حلقوں کی تعداد بڑھانے کے مطالبے پر بھی قائمہ کمیٹی میں تبادلہ خیال کرکے اسے منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی۔

وزیر قانون نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو کی جانب سے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے معاملے پر اپنی پارٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے سے قوم کو آگاہ کیا تھا، انہوں نے ہمیں کہا کہ ابھی ہم جن چیزوں پر ووٹ کرنے کو تیار ہیں آپ انہی کو پارلیمنٹ میں لائیں تاکہ ضروری چیزیں ابھی پارلیمنٹ سے منظور کرلیں، اور اس معاملے کو بعد کے لیے چھوڑ دیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا، یہ درخواست بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں وفاقِ پاکستان، سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو فریق نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئین میں مجوزہ ترمیم نے اس خدشے کو جنم دیا ہے کہ یہ اقدام تاریخی 18ویں آئینی ترمیم کے تحت منتقل شدہ کچھ اختیارات کو واپس لینے اور اعلیٰ عدلیہ کے ڈھانچے اور کام کرنے کے طریقۂ کار کو مزید ’باریک بینی سے ایڈجسٹ‘ کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے ’جیسا کہ عوامی طور پر رپورٹ کیا گیا ہے، اس تجویز کے تحت علیحدہ آئینی عدالتوں کے قیام اور آئین کے آرٹیکل 184(3) اور 199 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹس کو حاصل موجودہ دائرہ اختیار کو محدود یا منتقل کرنے کا منصوبہ شامل ہے‘۔

مزید کہا گیا کہ ’اگر ایسی کوشش کی اجازت دی گئی تو یہ آئینی ڈھانچے کو بنیادی طور پر بدل دے گی، عدلیہ کی آزادی کو تباہ کرے گی، اختیارات کی علیحدگی کے اصول کی خلاف ورزی کرے گی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایسی کوشش شہریوں کے انصاف تک رسائی اور عدالتی نظرِ ثانی کے آئینی حق کو ختم کر دے گی جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 کے تحت ضمانت یافتہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے