اسلام آباد اور کابل میں جاری مذاکرات کو بچانے کی آخری کوشش جاری، طالبان کی ضد بڑی رکاوٹ

اسلام آباد اور کابل کے درمیان جاری مذاکرات کو بچانے کی آخری کوشش جاری ہے، اگرچہ افغان طالبان کی ’ضد‘ اب بھی ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ہفتے کو استنبول میں شروع ہوا تھا، یہ مذاکرات قطر اور ترکیہ کی مشترکہ ثالثی میں 18 اور 19 اکتوبر کو دوحہ میں ہونے والے پاکستان-افغانستان مذاکرات کا تسلسل تھے، جن کے نتیجے میں سرحدی جھڑپوں کے کئی دن بعد مستقل جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔

دوحہ کے مذاکرات ان جھڑپوں کے بعد ہوئے تھے جو پاک-افغان سرحد پر کئی روز تک جاری رہیں، جبکہ اسلام آباد نے افغانستان میں گل بہادر گروپ کے کیمپوں پر حملے کیے تھے، دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ابتدائی 48 گھنٹے کی جنگ بندی کو مستقل امن میں بدل دیا گیا، اور یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں فریق استنبول میں دوبارہ ملاقات کر کے پائیدار امن و استحکام کے لیے طریقہ کار پر کام کریں گے۔

ایک اعلیٰ سیکیورٹی ذریعے نے بتایا کہ ’تیسرے دن مذاکرات 18 گھنٹے جاری رہے، اس دوران افغان طالبان وفد نے بارہا پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے، یعنی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دہشت گردی کے خلاف قابلِ بھروسا اور فیصلہ کن کارروائی، سے اتفاق کیا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان وفد نے مرکزی مسئلے کو تسلیم کیا تھا، لیکن کابل سے ہدایات موصول ہونے کے بعد ان کا موقف بدل گیا۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ’کابل سے آنے والی غیر منطقی اور غیر قانونی ہدایات‘‘ مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ دار ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور میزبان ممالک ’’انتہائی سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ پیچیدہ معاملات حل کرنا چاہتے تھے‘۔

ایک سیکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ ’طالبان کی ضد کے باوجود ایک آخری کوشش اب بھی جاری ہے تاکہ منطق اور بات چیت کے ذریعے کسی طرح اس معاملے کا حل نکالا جا سکے، اور مذاکرات اب اپنے آخری مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں‘۔

ذرائع کے مطابق ’اگرچہ زیادہ تر نکات پر دونوں فریق متفق ہو چکے تھے، لیکن افغان سرزمین سے کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں، خصوصاً کالعدم ٹی ٹی پی، کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی کا طریقہ کار اب بھی سب سے بڑا اختلافی نکتہ ہے‘۔

پیر کے روز مذاکرات کا ماحول ابتدا میں خاصا مثبت تھا، شرکا نے ’حوصلہ افزا پیش رفت‘ اور ’دونوں فریقوں کی سنجیدہ شمولیت‘ کی تعریف کی۔

تاہم رات تک صورتحال پھر تعطل کا شکار ہو گئی، شرکا کے مطابق افغان طالبان وفد اب بھی تحریری طور پر کسی چیز پر اتفاق کرنے سے گریزاں تھا، خاص طور پر اس معاملے پر کہ وہ ٹی ٹی پی کی سرپرستی ختم کرنے کے لیے قابلِ تصدیق ضمانت فراہم کریں۔

ایک ذریعے نے بتایا کہ ’ہمیں امید تھی کہ جلد ہی افغانستان کے ساتھ ایک باہمی دستاویز پر دستخط ہو جائیں گے اور اس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوگا، مگر ابھی تک یہ ممکن نہیں ہو سکا‘۔

ایک پاکستانی عہدیدار نے کہا کہ ’میزبان ممالک پاکستان کے خدشات کو سمجھتے ہیں، لیکن کابل اور قندھار میں بیٹھے لوگ وعدہ کرنے کو تیار نہیں‘۔

ایک اور ذریعے نے تسلیم کیا کہ ’یہ ایک مشکل مرحلہ ہے‘، جو مذاکراتی عمل میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔

افغان وفد کے ایک رکن نے کہا کہ ’افغان فریق نے واضح کر دیا ہے کہ کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں، ہم اب بھی پرامید ہیں کہ یہ مذاکرات مثبت نتیجہ دیں گے‘۔

ترکیہ اور قطر کے ثالثوں نے بھی یہی امید ظاہر کی کہ ’اگرچہ مذاکرات کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ختم ہوئے، لیکن یہ حقیقت اہم ہے کہ دونوں فریق مسلسل تین دن تک مذاکرات میں شریک رہے‘، ایک ثالث نے کہا کہ ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بھی فریق عمل کو ختم نہیں کرنا چاہتا‘۔

پیر کے روز مذاکرات کا لہجہ اتوار کی 9 گھنٹے طویل نشست کے برعکس تھا، جب پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ اسلام آباد نے طالبان وفد کے سامنے اپنا آخری مؤقف پیش کر دیا ہے، ایک سینئر سیکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ ’پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردوں کی جاری سرپرستی ناقابلِ قبول ہے‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے