پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے صدر ڈاکٹر رضوان تاج نے پیر کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کو بتایا کہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کی جانب سے طلبہ سے حد سے زیادہ فیس وصول کرنے پر 14 کالجوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کالجوں کی رجسٹریشن منسوخ بھی کی جا سکتی ہے اور جلد ہی ان کالجوں کی فہرست کمیٹی کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اجلاس کی صدارت رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر مہیش کمار ملانی نے کی، دیگر اراکین میں ڈاکٹر شازیہ صوبیہ اسلم سومرو، صبین غوری، زہرہ ودود فاطمی، فرح ناز اکبر، ڈاکٹر نکہت شکیل خان، ڈاکٹر درشن، عالیہ کامران، راجہ خرم شہزاد نواز، شائستہ خان اور سید رفیع اللہ شامل تھے جبکہ وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
اجلاس کے آغاز میں ڈاکٹر شازیہ صوبیہ اسلم سومرو نے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کی زیادہ فیسوں کا معاملہ اٹھایا، انہوں نے کہا کہ یہ ادارے مقررہ حد یعنی 18 لاکھ روپے سے کہیں زیادہ فیس وصول کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر رضوان تاج نے بتایا کہ کونسل نے فیسوں میں اضافے کے معاملے پر نوٹس لیا ہے، انہوں نے کہا کہ ’یہ درست ہے کہ بعض کالج مقررہ حد سے زیادہ فیسیں وصول کر رہے ہیں، انہیں شوکاز نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں اور یہ معاملہ کمیٹی کو بھی بھیجا جائے گا‘۔
وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے وضاحت کی کہ قواعد میں فیس بڑھانے کی گنجائش موجود ہے، تاہم کالجوں کو اس کے لیے وجوہات فراہم کرنا لازمی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں 188 میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں سے 122 نجی ہیں، اور اس مسئلے کی جانچ کے لیے قومی سطح پر ایک سروے کرایا جائے گا، ان کے مطابق شوکاز نوٹس زیادہ تر اسلام آباد کے میڈیکل کالجوں کو بھیجے گئے ہیں۔
پی ایم ڈی سی کے عہدیدار ڈاکٹر ریحان نقوی نے بھی تصدیق کی کہ 14 کالجوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
اجلاس میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) سے متعلق امور پر بھی گفتگو ہوئی، اراکین نے ٹیسٹ کے نتائج کی دو سالہ مدت اور رشتہ دارانہ (ریلیٹو) مارکنگ سسٹم نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ پالیسی کی وجہ سے ہونہار طلبہ دوبارہ درخواست دینے سے محروم رہ جاتے ہیں، چیئرمین نے بتایا کہ ہزاروں طلبہ نے 95 فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے، لیکن نشستوں کی محدود تعداد کی وجہ سے وہ داخلے سے محروم رہے۔
کمیٹی نے تجویز دی کہ پالیسی پر نظرثانی کی جائے تاکہ تمام امیدواروں کے لیے منصفانہ اور مساوی مواقع کو یقینی بنایا جا سکے۔
وفاقی وزیر صحت نے وضاحت کی کہ 6 ہزار سے زائد معیاری سوالات مشترکہ نصاب سے تیار کیے گئے ہیں، جنہیں شفافیت کے لیے مختلف سیٹس میں تقسیم کیا گیا، انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ صوبوں اور نیشنل اکیڈمک بورڈ کے ساتھ مزید مشاورت کے بعد طلبہ کے خدشات دور کیے جائیں گے۔
مزید برآں، اراکین نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ سرکاری ہسپتالوں کی جانب سے ادویات پارلیمنٹیرینز کے نام پر بغیر تصدیق کے تقسیم کی جا رہی ہیں۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے اور کسی بھی ممکنہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے ایک آن لائن ٹریکنگ سسٹم تیار کیا جائے۔
