یو کرین کا زمین چھوڑنے سے انکار، نظرثانی شدہ امن منصوبہ پیش کرنے کی تیاری

یوکرین نے زمین چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کو ایک نظر ثانی شدہ امن منصوبہ پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق کیف امریکیوں کے لیے متبادل تجاویز پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، صدر ولادیمیر زیلنسکی نے دوبارہ کہا کہ وہ زمین نہیں چھوڑ سکتے، انہیں یوکرینی یا بین الاقوامی قانون کے تحت ایسا کرنے کا حق نہیں۔

انہوں نے یہ باتیں پیر کو یورپی اور نیٹو رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کیں، جس کا مقصد امریکی حکومت کو اس امن منصوبے کی حمایت کرنے سے روکنا تھا، جس میں یوکرین کے لیے بڑی قربانیاں شامل ہوں، اتحادی خدشہ رکھتے ہیں کہ یہ مستقبل میں دوبارہ حملے کے لیے یوکرین کو کمزور کر دے گا۔

اسی دوران، شمال مغربی یوکرین کے شہر سومی پر روسی ڈرون حملے کے بعد رات بھر بجلی بند رہی۔

علاقے کے گورنر کے مطابق 12 سے زیادہ ڈرونز نے بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا، یہ روس کے روزانہ رات کے حملوں میں تازہ ترین ہے، حکام ہلاکتوں کی جانچ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب، یوکرین کے مغربی شہر ٹیرنوپل میں روس کے ایک مہلک حملے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ٹیرنوپل کے پولیس چیف نے کہا کہ پچھلے ماہ روسی میزائل حملے کے بعد 2 مزید لاشیں ملی ہیں، جس سے مجموعی ہلاکتیں 38 تک پہنچ گئی ہیں، جن میں 8 بچے بھی شامل ہیں۔

زیلنسکی کا یورپ کی موجودہ سفارتی دورہ، امریکی اور یوکرینی مذاکرات کاروں کے درمیان ہفتے کے آخر میں ہونے والی شدید بات چیت کے بعد سامنے آیا ہے، جو کسی قابل قبول معاہدے تک نہیں پہنچ سکی تھی۔

زیلنسکی کو پیر کو اپنے چیف مذاکرات کار روسٹیم یومرووف کی جانب سے اس پرائیویٹ سمٹ کی تفصیلات سے آگاہ کیا جانا تھا، جنہوں نے ’ٹیلی گرام‘ پر لکھا کہ وہ امریکی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان براہِ راست بات چیت کی تفصیلات پہنچائیں گے۔

یورپی رہنما یوکرین کی حمایت اور امریکا کو ساتھ رکھنے کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے رپورٹ کیا کہ یوکرینی صدر نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ان کی ٹیم امریکیوں کو نیا منصوبہ جلد بھیج سکتی ہے۔

زمین کی قربانی کے موضوع پر زیلنسکی نے کہا کہ روس ہم سے علاقے دینے کا مطالبہ کر رہا ہے، لیکن ہم کچھ نہیں چھوڑنا چاہتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایسا کرنے کا قانونی حق حاصل نہیں، نہ ہی یوکرینی قانون، ہمارا آئین اور بین الاقوامی قانون اجازت دیتا ہے، اور نہ ہی ہمارے پاس اخلاقی حق ہے۔

زیلنسکی نے طویل عرصے سے کہا ہے کہ یوکرین کی سرحدوں میں کوئی تبدیلی عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ہونی چاہیے۔

منگل کو روس کے چیف آف جنرل اسٹاف ویلیری گیرسموف نے کہا کہ روسی افواج یوکرین کی فرنٹ لائن کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں اور میرنوہراد کو نشانہ بنا رہی ہیں، جو سٹریٹجک لحاظ سے اہم شہر پوکروفسک کے قریب ہے۔

روس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پوکروفسک پر قبضہ کر لیا ہے، جو پیوٹن کو ڈونباس کے پورے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے قریب لے جائے گا، جو ڈونٹسک اور لوہانسک کے ہمسایہ علاقوں پر مشتمل ہے۔

یوکرین نے اس کی تردید کی ہے، اور ایک کمانڈ سینٹر نے ’بی بی سی‘ کو دکھایا کہ یوکرینی فوجی حال ہی میں شہر میں لڑائی کر رہے ہیں، حالاں کہ روس نے اس پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔

انٹرفیکس-یوکرین نیوز ایجنسی کے مطابق زیلنسکی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا کی طرف سے تجویز کردہ ابتدائی 28 نکاتی منصوبے (جسے کیف اور یورپی رہنماؤں نے روس کے حق میں زیادہ سمجھ کر مسترد کر دیا تھا) کو 20 نکات تک کم کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی یوکرین کے حق میں نقطے کو ختم نہیں کیا گیا، تاہم زمین کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا۔

زیلنسکی نے مشرقی ڈونباس علاقے اور زاپوریژیا نیوکلیئر پاور پلانٹ کے کنٹرول کو سب سے حساس مسائل میں شامل کیا۔

امریکی منصوبے کے پہلے لیک شدہ ورژن میں تجویز دی گئی تھی کہ یوکرین ڈونباس پر مکمل کنٹرول روس کو دے دے، حالاں کہ کریملن کی افواج 4 سال سے زیادہ جنگ کے باوجود اسے مکمل طور پر حاصل نہیں کر پائیں۔

منصوبے میں کہا گیا ہے کہ زاپوریژیا سے پیدا ہونے والی توانائی، جو یورپ کا سب سے بڑا نیوکلیئر پاور پلانٹ ہے، روس اور یوکرین میں تقسیم کی جائے گی۔

کیف اور یورپ کے رہنماؤں نے حالیہ ہفتوں میں اس منصوبے کو بہتر بنانے میں پیش رفت کی نشاندہی کی ہے، اور انہوں نے جنگ ختم کرنے کی کوشش کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش کی تعریف کی ہے۔

پیر کو ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ہنگامی اجلاس (جس میں زیلنسکی، برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر، فرانسیسی صدر ایمانول میکرون اور جرمن چانسلر فریڈریک مرز نے شرکت کی) کو وسیع پیمانے پر یوکرین کی حمایت کے اظہار کے طور پر دیکھا گیا، کیوں کہ یہ وائٹ ہاؤس کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔

ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ نے کہا کہ یہ بات طے ہوئی ہے کہ امریکی قیادت میں مذاکرات اہم لمحہ ہیں تاکہ یوکرین کی حمایت میں اضافہ کیا جا سکے، اور انصاف پر مبنی اور پائیدار امن کے لیے بار بار زور دیا گیا، جس میں مضبوط سیکیورٹی ضمانتیں شامل ہوں۔

مستقبل میں ان سیکیورٹی ضمانتوں کی نوعیت بھی مذاکرات میں کھلی ہوئی ایک سوالیہ نشان ہے۔

بین الاقوامی اتحاد جمع کرنے کی کوششیں جاری ہیں جو امن معاہدے کی صورت میں کیف کو جاری فوجی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہو، اگرچہ یہ ابھی واضح نہیں کہ اس کی شکل کیا ہوگی۔

جبکہ برطانیہ اور فرانس نے یوکرین میں بین الاقوامی فوجی تعینات کرنے کی تجویز دی ہے، یورپ کے کئی اہم دفاعی کھلاڑی، بشمول جرمنی اور اٹلی، اس خیال پر شکوک کا اظہار کر چکے ہیں۔

یہ بھی واضح نہیں کہ امریکا مستقبل میں یوکرین کی دفاعی انتظامات کو کس حد تک سہارا دینے کے لیے تیار ہوگا۔

لندن میں مذاکرات کے بعد، زیلنسکی برسلز گئے تاکہ نیٹو کے سربراہ مارک رُوٹے اور یورپی کمیشن کی سربراہ ارسولا وون ڈیر لین سے ملاقات کریں، اور منگل کو اٹلی میں وزیراعظم جارجیا میلونی سے ملاقات کریں گے۔

ماسکو نے بھی دعویٰ کیا کہ وائٹ ہاؤس کے ساتھ بات چیت تعمیری رہی ہے، حالانکہ کوئی واضح عوامی اشارہ نہیں ملا کہ اس نے وہ اہداف چھوڑ دیے ہیں جو اس نے فروری 2022 میں مکمل حملہ شروع کرنے پر رکھے تھے۔

اتوار کو ٹرمپ نے کہا کہ وہ زیلنسکی کو امن معاہدہ حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، جسے انہوں نے اپنی اہم خارجہ پالیسی ترجیح بنایا ہے اور دعویٰ کیا کہ وہ اسے صدارتی مدت کے دوران جلد حل کر دیں گے۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ روس اس امن منصوبے سے متفق ہے، جو امریکیوں نے دونوں فریقوں کو پیش کیا، لیکن وہ تھوڑے مایوس ہیں کہ زیلنسکی نے اسے نہیں پڑھا۔

اسی دوران، زیلنسکی نے کہا کہ وہ 3 دن کی امریکی بات چیت کے بعد یومرووف کی طرف سے آگاہی کا انتظار کر رہے ہیں۔

زیلنسکی نے کہا کہ کچھ مسائل صرف ذاتی ملاقات میں ہی زیر بحث آ سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے