سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اگر 27ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 243 میں تبدیلی سے ملکی سیاست، آئین اور جمہوریت پر منفی اثرات مرتب ہوئے تو وہ ہمیں قبول نہیں ہوگا، تاہم اگر اس میں صرف انتظامی باتیں ہیں، تو انتظامی چیزیں ملک میں چلتی رہتی ہیں، اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو جو اختیارات دیے گئے اگر ان اختیارات میں کمی کی گی تو جے یو آئی اس کی بھرپور مخالفت کرے گی۔
این ایف سی ایوارڈ میں آئین کے تحت صوبوں کے حصے میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، کمی نہیں، اگر صوبوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے تو ہم نے اصولی فیصلہ اس کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ صرف ایک ادارے کی سوچ کی ہی حاکمیت نہیں ہونے چاہیے، پارلیمنٹ، متعلقہ اسٹیک ہولڈر کو بیٹھ کر اجتماعی قومی مؤقف اپنانا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے دوران تمام سیاسی جماعتیں رابطے میں تھی، اسی رابطے کے تحت ہم نے حکومت کو 35 شقوں سے دستبردار کروایا تھا، 18ویں ترمیم کوئی فریق کسی کے مقابلے میں نہیں تھے، اس وقت سب لوگ متفق تھے۔
پاک-افغان مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ میں منتظر ہوں کہ کوئی اچھی خبر ملے اور مذکرات کامیاب ہوں، دونوں پڑوسی ملک ہیں، دونوں کی بہتری قیام امن میں ہی ہے۔
