کیا نوٹیفکیشن کے اجرا میں تاخیر کی وجہ ہائبرڈ نظام میں دراڑ ہے؟

بہت سے تجزیہ کار اور حکومتی اہلکار اس پورے معاملے کو ضرورت سے زیادہ بڑا معاملہ بنا کر پیش کررہے تھے، ان کی تمام قیاس آرائیاں ختم ہوچکی ہیں کیونکہ طویل عرصے سے زیرِ بحث نوٹیفکیشن بلآخر عوام کے لیے جاری کر دیا گیا ہے۔

لیکن نوٹیفکیشن میں ابھی تک اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ہائبرڈ حکومتی نظام کے دونوں فریقین کے درمیان تناؤ (اگر کوئی تھا) کی اصل وجہ کیا تھی یا اگر کس فریق نے اس معاملے میں پیچھے ہٹنے کی کوشش کی۔

اگرچہ متعدد قیاس آرائیاں زیرگردش رہیں کہ اختلافات کی وجہ سے نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار ہوا اور کچھ ‘تجزیہ کاروں’ کی رائے تھی کہ یہ اختلافات ٹوٹ پھوٹ کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے جو ہائبرڈ سیٹ اپ کے خاتمے پر منتج ہوگا لیکن دوسری طرف ایسے مبصرین بھی موجود تھے جو صورت حال کو بہت زیادہ باریک بینی سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ تباہی کی جو پیش گوئی کی جا رہی ہے وہ مبالغہ آرائی، غیر حقیقت پسندانہ اور اصل حقائق سے زیادہ خواہش مندانہ سوچ کی پیداوار ہے۔

27 ویں ترمیم میں سب کچھ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے تو یہ دیکھنا مشکل تھا کہ آخر بھلا کوئی اختلاف کیوں ہوگا۔ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے انہیں بنیادی طور پر صرف ترمیم کے الفاظ کو کاپی اور پیسٹ کرنے کی ضرورت تھی۔ درحقیقت اسے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے تھا۔

خود یہ ترمیم اس حقیقت کی معترف اور عکاس تھی کہ اس ہائبرڈ نظام کو تشکیل دینے والے دو غیر مساوی شراکت دار‘ چاہے وہ جتنے بھی مختلف کیوں نہ ہوں، ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ جب یہ حقیقت تسلیم شدہ تھی تو پھر آخر کہاں، کیسے اور کیوں سول قیادت کی جانب سے کسی طرح کے تحفظات اٹھیں گے؟ یہ تو دور کی بات ہے کہ ایسے لوگ جنہیں عام زبان میں beggars can’t be choosers کہا جاتا ہے، کسی قسم کا ’مؤقف‘ اختیار کرنے کے قابل بھی ہوں گے۔

اگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ موجودہ طاقت کے انتظام کے سویلین فریق کے لیے اس نظام کو جاری رکھنا کتنا ضروری ہے، خاص طور پر گزشتہ انتخابات جہاں اس کی عوامی حمایت میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی اور اسے مشکل سے جیت دلوائی گئی حالانکہ اس کے حریف نے ہر ممکن مشکلات کا سامنا کیا تو آپ کہیں گے کہ یہ انتہائی اہم ہے۔ اور آپ بالکل درست بھی ہوں گے۔

یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی سیاسی بقا اور اہمیت کے لیے درمیانی تا طویل مدت میں ایک ادارے کی قیادت کی فیاضی پر کس حد تک انحصار کرے گی کیونکہ نظام کا وہ حصہ جس کا ابھی اعلان کیا گیا ہے، اگلے عام انتخابات کے بعد بھی تقریباً دو سال تک برقرار رہے گا۔

ہائبرڈ نظام کے برقرار رہنے کی ایک اور واضح نشانی حالیہ تلخ جھگڑوں کی صورت میں سامنے آئی کہ جو قید میں موجود حزبِ اختلاف کے رہنما اور انہیں اذیت دینے والوں کے درمیان ہوئے جہاں گفتگو بلا ضرورت توہین اور سخت الفاظ پر مبنی رہی۔

وہ ملک کے سب سے مقبول سیاستدان ہوسکتے ہیں لیکن وہ انتہائی سخت اور غیر مہذب زبان استعمال کرنے کے ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے دیگر لوگ ان کی دیکھا دیکھی یہی زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہ زبان قومی مفاہمت کے امکانات کو مزید کم کردیتی ہے اور ان کے مخالفین کو ان کے خلاف متحد بھی کر دیتی ہے۔

باقی سب کچھ غیرمتعلقہ ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف جنہوں نے فوجی حکمران کے پسندیدہ شاگرد سے ایک ایسے لیڈر میں کامیابی اور بہادری کے ساتھ تبدیل ہونے کا سفر طے کیا جو سول بالادستی کے اصول کی پاسداری کے لیے پُرعزم ہے، ایسا لگتا ہے کہ انہیں حقیقت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

وہ بعض اوقات یہ ظاہر کرنے کے لیے بولتے ہیں کہ وہ اب بھی اپنے عقائد کے پابند ہیں لیکن اپنی واپسی اور ایک طویل اور اہم سیاسی کریئر کے بعد، وہ اب ایک قدم پیچھے ہٹنے اور اپنے منتخب جانشین یعنی اپنی صاحبزادی کے سیاسی مستقبل کے تحفظ کے لیے اپنی زبان نرم کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔

ان کے چھوٹے بھائی اور وزیرِ اعظم پاکستان بظاہر اپنے عالمی کردار سے مطمئن نظر آتے ہیں جو خلیج، وسطی ایشیا اور دیگر دور دراز مقامات پر جا کر مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں اور معاہدوں (MoUs) پر دستخط کرتے ہی۔ ان معاہدوں کے بارے میں ہماری بے یار و مددگار قوم کو دل سے یہ امید رکھنی چاہیے کہ وہ جلد کسی دن حقیقی غیرملکی سرمایہ کاری کی صورت میں عملی شکل اختیار کریں تاکہ ان کی زندگی بہتر ہو سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ چونکہ 27ویں ترمیم پارلیمان کی اطاعت پذیر کارروائی کے ذریعے باآسانی منظور ہو گئی، اس لیے جو بھی افراد وزارتِ قانون اور وزارتِ دفاع سے لے کر جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ تک نوٹیفیکیشن تیار کرنے اور لکھنے کے ذمہ دار تھے، وہ شاید حد سے زیادہ پُر اعتماد اور لاپروا ہو گئے ہوں۔

وہ اچانک اس وقت جاگے کہ جب نوٹیفکیشن پبلک کرنے میں تاخیر مسئلہ بن گئی۔ انہوں نے کہا، ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ہمیشہ بحران کے قریب رہا ہے۔ سوشل میڈیا میں نظریات کو پھیلانے کے ساتھ، کمزور الیکٹرانک میڈیا بھی خود کو اس معاملے سے دور نہیں رکھ سکا۔ اور یوں طوفان برپا ہوگیا لیکن بلبلہ آخر پھٹ ہی گیا۔

خیر اس بارے میں کافی بات ہوگئی۔ موجودہ نظام مستقبل قریب تک جاری رہ سکتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ ملک کو ہر طرف سے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ دو صوبوں میں ہونے والی دہشت گردی برسوں کی ناکام ریاستی پالیسیز کا نتیجہ ہو یا غیر ملکی مداخلت کا، یہ ملکی سلامتی کے ذمہ داروں کے لیے سنگین سوالات پیدا کرتی ہے۔

معاشی ترقی کے وعدے اس وقت کھوکھلے محسوس ہوتے ہیں جب آبادی معیشت سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہو۔ تقریباً ہر روز دستخط کیے جانے والے معاہدوں میں بعض اوقات صوبائی کنٹرول کو کمزور کرکے غیر ملکی کمپنیز کو ہمارے معدنی وسائل تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ان صوبوں نے زیادہ حقیقی سرمایہ کاری نہیں دیکھی ہے۔

یہاں تک کہ جو معمولی آمدنی ہے، وہ بھی ان لوگوں کی زندگیوں کو بدلنے کے لیے کافی نہیں جو ان معدنیات سے حاصل ہونے والی دولت کے حقیقی مالک ہیں۔ صوبوں سے رقم کی آئینی طور پر ضمانت شدہ حصہ چھیننے کی ایک اور کوشش ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کے نتائج کی کوئی فکر نہیں کی جارہی۔

اب جبکہ نوٹیفکیشن کا معاملہ طے پا چکا ہے، اگر ملک کو اپنے حقیقی چیلنجز سے نمٹنا ہے تو اسے ان تمام مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کی ذمہ داری ہے۔

اگر لفظ ‘حب الوطنی‘ پر اتنا سیاسی الزام نہ لگایا جاتا تو میں اسے حب الوطنی کی ضرورت کہوں گا لیکن کیا کوئی واقعی بیانات سے آگے بڑھ کر اپنا حقیقی فرض ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟

یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے