آسٹریلیا میں ایک شخص نے جس پتھر کو سالوں تک سونے کا ٹکڑا سمجھ کر گھر میں رکھا، وہ دراصل نایاب شہابِ ثاقب نکلا اور سونے سے کہیں زیادہ قیمتی ثابت ہوا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2015 میں آسٹریلوی شہری ڈیوڈ ہول میلبرن کے قریب میری بَرو ریجنل پارک میں دھات کی تلاش میں گھوم رہے تھے کہ ان کے میٹل ڈیٹکٹر نے ایک غیر معمولی اشارہ دیا۔ انہیں پیلے مٹیلے حصے میں ایک سرخی مائل اور بہت زیادہ وزنی پتھر ملا۔
ڈیوڈ ہول نے اسے گھر لاکر مختلف طریقوں سے توڑنے کی کوشش کی اور یہاں تک کہ تیزاب میں بھی بھگو کر دیکھا مگر سلیج ہتھوڑے سے بھی اس میں معمولی دراڑ نہ پڑی۔
بعد میں پتا چلا کہ وہ اسے توڑ ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ سونے کا ٹکڑا نہیں بلکہ اصل شہابِ ثاقب تھا۔
میوزیم لے جانے پر حقیقت سامنے آئی
پتھر کے نہ ٹوٹنے کے باوجود اس کی عجیب ساخت نے انہیں حیران رکھا، لہٰذا وہ اسے میلبرن میوزیم لے گئے، جہاں ماہر ارضیات نے تصدیق کی کہ یہ شہابِ ثاقب ہے۔
میوزیم کے ماہر ڈرموٹ ہنری کے مطابق اس پتھر پر مخصوص نشانات تھے جو اسی وقت بنتے ہیں جب شہابِ ثاقب فضائی رگڑ سے پگھلتے ہوئے زمین کے ماحول سے گزرتے ہیں۔
ہنری نے مزید بتایا کہ اپنے 37 سالہ کیریئر میں ہزاروں پتھر دیکھنے کے باوجود صرف دو ہی اصلی شہابِ ثاقب نکلے اور یہ ان میں سے ایک تھا۔
4.6 ارب سال پرانا شہابِ ثاقب
سائنسدانوں نے اس پر تحقیقاتی مقالہ شائع کیا اور اسے دریافت کی جگہ کے نام پر ’’میری بَرو‘‘ کا نام دیا۔ اس شہاب ثاقب کا وزن 17 کلوگرام ہے جس کی عمر 4.6 ارب سال بتائی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ خلا کے بارے میں سب سے سستی سائنسی تحقیق ہیں۔ یہ ہمیں سورج، سیاروں اور ہمارے نظام شمسی کی ابتدا تک لے جاتے ہیں۔
کچھ شہابِ ثاقب میں ایسے سالمے بھی پائے جاتے ہیں جو زندگی کی بنیاد بن سکتے ہیں، جیسے امینو ایسڈز۔
شہابِ ثاقب شاید 100 سے 1000 سال قبل زمین پر گرا
کاربن ڈیٹنگ سے پتا چلا ہے کہ یہ پتھر 100 سے 1000 سال پہلے زمین پر گرا جب کہ 1889 سے 1951 کے درمیان آسٹریلیا میں کئی شہاب گرنے کی رپورٹس ملی تھیں اور ان میں سے کوئی بھی اس کا ممکنہ ذریعہ ہوسکتا ہے۔
تحقیقی ٹیم کے مطابق یہ شہابِ ثاقب غالباً مریخ اور مشتری کے درمیان ایسٹرائڈ بیلٹ سے آیا ہوگا، جہاں ٹکڑوں کے باہمی تصادم کے بعد یہ زمین کی جانب حرکت کرگیا۔
یہ پتھر انتہائی نایاب ہے کیونکہ ریاست وکٹوریہ میں اب تک 17 شہابِ ثاقب ملے ہیں جبکہ ہزاروں سونے کے ٹکڑے مل چکے ہیں۔ اسی لیے ماہرین کے مطابق یہ دریافت سائنس کے لیے سونے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔
