اے آئی پر انحصار آپ کے علم کو کم کرسکتا ہے، نئی تحقیق میں انکشاف

ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اے آئی پر انحصار آپ کے علم کو کم کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔

لاکھوں افراد نے علم تک رسائی کے لیے بڑے لینگویج ماڈلز کا استعمال شروع کردیا ہے اور 2022 کے بعد سے لوگ اے آئی چیٹ بوٹس کا استعمال کررہے ہیں۔

ان کا استعمال بظاہر آسان ہے کیونکہ آپ سوال پوچھیں، چند سیکنڈز میں ایک منظم خلاصہ حاصل کریں اور آگے بڑھ جائیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے آسانی سے سیکھ لیا ہو۔

تاہم نئی تحقیق میں ایک اہم خبردار کرنے والا پہلو سامنے آیا ہے۔

اس تحقیقی مقالے کے مطابق جب لوگ کسی موضوع کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اے آئی پر تکیہ کرتے ہیں تو ان کی سیکھنے کی صلاحیت روایتی گوگل سرچ کے مقابلے میں زیادہ سطحی رہ جاتی ہے۔

10 ہزار افراد پر مشتمل تجربات

اس تحقیق کے مصنفین مارکیٹنگ کے پروفیسرز جن ہو یون اور ان کے ساتھی نے سات تجربات کیے جن میں مجموعی طور پر 10 ہزار سے زائد افراد شامل تھے۔

ہر تجربے میں شرکاء کو ایک موضوع سیکھنے کا کام دیا گیا۔ مثال کے طور پر سبزیوں کا باغ کیسے اُگایا جائے؟

اس کے بعد انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور ایک گروپ کو ہدایت دی گئی کہ چیٹ جی پی ٹی یا کسی لینگویج ماڈلز سے معلومات حاصل کرے۔

جبکہ دوسرے گروپ کو کہا گیا کہ وہ روایتی گوگل سرچ کے ذریعے مختلف لنکس کھول کر معلومات اکٹھی کریں۔

شرکاء پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اور وہ چاہیں تو مزید سوالات پوچھ سکتے تھے یا گوگل پر جتنی دیر چاہیں سرچ کرسکتے تھے۔

سیکھنے کے بعد سب شرکاء سے کہا گیا کہ وہ اپنے دوست کو اسی موضوع پر مشورہ لکھ کردیں جس کے نتائج حیران کن تھے۔

ڈیٹا نے ایک واضح رجحان دکھایا کہ جن لوگوں نے لینگویج ماڈلز کے ذریعے سیکھا، انہیں محسوس ہوا کہ انہوں نے کم سیکھا ہے۔ انہوں نے مشورہ لکھنے میں کم محنت کی اور ان کا تحریری مشورہ مختصر، کم مستند اور زیادہ عمومی نکلا۔

جب یہ تحریری مشورے دیگر غیر متعلقہ افراد کو دکھائے گئے تو انہوں نے بھی اسے کم معلوماتی، کم مددگار اور اور کم قابلِ اعتماد قرار دیا جب کہ یہ فرق ہر تجربے میں مستقل رہا۔

صرف خلاصہ ملنے کی وجہ سے سیکھنا سطحی ہوجاتا ہے اور ایک نظریہ یہ تھا کہ شاید لینگویج ماڈلز کم متنوع معلومات دکھاتا ہے۔

اس لئے ایک تجربے میں دونوں گروپوں کو بالکل ایک جیسی معلومات فراہم کی گئیں۔ ایک گروپ کو چیٹ جی پی ٹی کے خلاصے کی صورت میں اور دوسرے کو گوگل سرچ لنکس کے طور پر۔

نتیجے پھر بھی وہی رہے اور لینگویج ماڈلز کا خلاصہ دیکھنے والوں کی معلومات کم گہری تھیں جب کہ اسی طرح گوگل کی اے آئی اور ویو فیچر کے ساتھ بھی یہی اثر دیکھا گیا۔

ماہرین کے مطابق انسان تب بہتر سیکھتا ہے جب وہ خود مواد پر محنت کرے ۔لنکس کھولے، مختلف ذرائع پڑھے، ان کا تقابل کرے اور خود اپنا نتیجہ اخذ کرے کیونکہ گوگل سرچ یہ ’’فرکشن‘‘ یعنی محنت لازمی کرواتا ہے۔

جبکہ لینگویج ماڈلز ہر چیز براہِ راست، ایک صفحے پر سادہ خلاصے کی شکل میں پیش کر دیتا ہے جس سے سیکھنا غیر فعال ہوجاتا ہے۔

حل کیا ہے؟

محققین کا کہنا ہے کہ مقصد لینگویج ماڈلز سے دور ہونا نہیں بلکہ انہیں سمجھ داری سے استعمال کرنا ہے۔ اگر آپ کو فوری اور مختصر جواب چاہیے تو اے آئی بہترین ہے لیکن اگر مقصد کسی موضوع کو گہرائی سے سیکھنا ہو تو صرف خلاصہ کافی نہیں۔

مستقبل کی تحقیق کا مقصد ایسے ٹولز بنانا ہے جو لینگویج ماڈلز استعمال کرتے ہوئے بھی سیکھنے میں فعال شمولیت پیدا کریں، خاص طور پر تعلیمی ماحول میں جہاں طلبہ کی بنیادی مہارتیں مضبوط کرنا ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے