غذائی کمی سے قد میں رکاوٹ اور آبادی کے انتظام کو ’اعلیٰ قومی ترجیح‘ قرار دے دیا گیا ہے، احسن اقبال

ڈان میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’پاکستان پاپولیشن سمٹ‘، آبادی میں توازن کی بحالی اور پائیدار مستقبل کی تعمیر سے متعلق قومی مکالمہ، اسلام آباد میں شروع ہوگیا

’پاکستان پاپولیشن سمٹ‘ آبادی میں توازن کی بحالی اور پائیدار مستقبل کی تعمیر سے متعلق قومی مکالمہ، اسلام آباد میں شروع ہوگیا ہے، جس کا مقصد آبادی کی منصوبہ بندی کو ملکی ترقی میں سرمایہ کاری کے طور پر تسلیم کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کے زیر اہتمام 2 روزہ سمٹ میں سیاستدانوں، ماہرینِ معاشیات، ترقیاتی ماہرین، نجی شعبے کے رہنماؤں اور دیگر ماہرین کو اکٹھا کیا جا رہا ہے، تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے صحت، خوراک اور پانی کے تحفظ اور روزگار پر پڑنے والے دباؤ کے پیش نظر مشترکہ وژن تشکیل دیا جا سکے۔

24 کروڑ 10 لاکھ سے زائد آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جہاں ہر سال 40 سے 50 لاکھ افراد کا اضافہ ہوتا ہے، آبادی میں سالانہ 2.40 فیصد اضافہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی روزگار کے مواقع سے آگے بڑھ رہی ہے، اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو 2040 تک 10 کروڑ 40 لاکھ ملازمتوں کی ضرورت ہوگی، اگر آبادی کی موجودہ رفتار کم نہ ہوئی تو پاکستان 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) حاصل نہیں کر پائے گا۔

ڈاکٹر حنید مختار نے مزید بتایا کہ کم سرمایہ کاری (جو آبادی میں اضافے سے منسلک ہے) کے باعث پاکستان کا ’کیپیٹل-لیبر ریشو بھارت کے مقابلے میں بہت کم‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عنصر مزدوروں کی پیداواریت کے لیے نہایت اہم ہے۔

کنسورشیم فار ڈیولپمنٹ پالیسی ریسرچ کے فیلو ڈاکٹر حنید مختار نے کہا کہ پاکستان کی فی کس جی ڈی پی 3.6 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 1990 میں پاکستان کی فی کس آمدنی بھارت سے 56 فیصد زیادہ اور بنگلا دیش سے تقریباً دوگنی تھی، مگر 2024 میں بھارت کی فی کس آمدنی پاکستان سے 71 فیصد زائد جب کہ بنگلا دیش کی 53 فیصد زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ آبادی کا حجم جی ڈی پی میں اضافے کو متاثر کرتا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ آئندہ 5 سال میں بھارت انفرااسٹرکچر میں ہمیں کہیں پیچھے چھوڑ دے گا۔

ڈاکٹر زیبا ستار نے کہا کہ اسکول سے باہر بچوں کی تعداد ’ناقابل قبول‘ ہے، یہ تعداد والدین کی عدم دلچسپی نہیں بلکہ ’حکومتوں کی ناکامی‘ کا نتیجہ ہے۔

پاپولیشن کونسل کی کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر زیبا ستار نے دوسرے سیشن کا آغاز کرتے ہوئے سمٹ کے مرکزی موضوع ’توازن‘ کی وضاحت کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی پوری بحث توازن کے گرد رکھی ہے کیونکہ قومی بیانیہ بنانا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں ’واضح طور پر عدم توازن‘ کا شکار ہے اور ہماری آبادی کی شرح ’ہمارے پڑوسیوں سے دوگنی‘ ہے۔

وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اسٹنٹنگ اور آبادی مینجمنٹ کو قومی سطح پر سب سے بڑی ترجیح قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا حکومت متعدد شعبوں )صحت، غذائیت، تعلیم، سماجی تحفظ، پانی اور مقامی حکومت) کو مربوط بنا کر ہنگامی اقدامات کی جانب بڑھ رہی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ اعلیٰ اسٹنٹنگ والے ممالک اپنی جی ڈی پی کا 2 سے 3 فیصد سالانہ کھو دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسٹنٹڈ (کمزور نشوونما والے) بچے اپنی پوری زندگی میں 22 فیصد تک کم کماتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف صحت کا نہیں بلکہ ’قومی پیداواریت کا بحران اور پاکستان کی طویل مدتی معاشی پائیداری کے لیے خطرہ‘ ہے۔

انہوں نے 2050 میں آبادی کے 370 ملین تک پہنچنے کے امکان کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ’’مستقبل کے استحکام اور ترقی کے لیے فیصلہ کن چیلنج‘‘ قرار دیا۔

11:30am — ’آبادی صرف ڈیماگرافکس نہیں رہی‘

ایم این اے شائستہ پرویز نے کہا کہ آبادی کا مسئلہ اب صرف آبادیاتی نہیں رہا، یہ معیشت، عوام کی فلاح، بچوں کے مستقبل، ہر چیز سے جڑا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی عزم موجود ہے، مگر اب آغاز ’عمل‘ سے ہونا چاہیے۔

11:26am — ’نئی وزارت نہ بنائیں، آگاہی مہم وزارتِ اطلاعات چلائے‘

سینیٹر شیری رحمان نے مشورہ دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وزارتِ اطلاعات قومی زبان میں آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی پر آگاہی مہم چلائے۔

انہوں نے کہا:

”نئی وزارتیں نہ بنائیں۔ خدا کے لیے نہیں۔“

انہوں نے تجویز دی کہ آگاہی پیغامات موبائل فونز اور اینڈرائیڈز پر بھیجے جائیں۔

11:14am — ’مانع حمل کے لیے بڑی طلب موجود ہے‘

شیری رحمان نے کہا کہ:

”مانع حمل (contraception) کی طلب موجود ہے۔ ہمارا CPR صرف 34 فیصد ہے، جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ایک صوبہ مردوں کو واسیٹومی کی سہولت بھی فراہم کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا:

”ہر 50 منٹ میں پاکستان میں ایک عورت حمل یا زچگی کی پیچیدگیوں سے جان کی بازی ہار دیتی ہے۔“

11:05am — ’خواتین کا 72 فیصد دن پانی لانے میں گزرتا ہے‘

شیری رحمان نے بتایا کہ:

”پاکستان میں اوسط عورت اپنے دن کا 72 فیصد حصہ پانی لانے میں گزار دیتی ہے۔“

انہوں نے بڑے ڈیموں کو ’’ماضی کی چیز‘‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ مہنگے اور بے گھر کرنے والے منصوبے ہیں۔

11:03am — آبادی میں اضافہ موسمیاتی اثرات کو بڑھا دیتا ہے

انہوں نے کہا:

”جب معاشی نمو موسمیاتی جھٹکوں اور ادارہ جاتی کمزوری سے متاثر ہو تو آبادی کا دباؤ ان مسائل کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔“

11:00am — ’آبادی کا دباؤ خطرناک حد پار کر چکا ہے‘

شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان آبادی کو ’’ڈیموگرافک ڈیوڈنڈ‘‘ سمجھتا رہا ہے، لیکن جب لاکھوں نوجوانوں کو روزگار مہیا نہیں ہو رہا تو یہ چیلنج بن جاتا ہے۔

10:55am — آبادی میں اضافہ ’ٹک ٹک کرتی ٹائم بم‘

شیری رحمان نے کہا:

”آبادی میں بے قابو اضافہ، پانی کی کمی اور موسمیاتی دباؤ — یہ تین خاموشی سے پھٹ جانے والے ٹائم بم ہیں۔“

10:50am — پاکستان نوجوان آبادی رکھتا ہے

ڈان کی سی ای او نازفریں سہگل لکھانی نے کہا:

”پاکستان میں اوسط عمر صرف 20 سال ہے۔“

انہوں نے کہا کہ آبادی میں تیز رفتار اضافہ صحت، تعلیم، روزگار، پانی، رہائش اور توانائی ہر شعبے پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

10:40am — کانفرنس کا آغاز

قومی ترانے اور تلاوتِ قرآنِ پاک کے ساتھ کانفرنس کا آغاز ہوا۔

10:25am — مہمانوں کی آمد

شرکا اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور سمٹ کے آغاز کے منتظر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے