اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اپنے طویل عرصے سے جاری بدعنوانی کے مقدمے میں ملک کے صدر سے معافی کی درخواست کردی، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ فوجداری کارروائیاں ان کی حکومت کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ بن رہی ہیں اور معافی اسرائیل کے مفاد میں ہوگی۔
ملک کے طویل ترین عرصے تک خدمات انجام دینے والے وزیر اعظم نیتن یاہو رشوت، فراڈ اور اعتماد میں خیانت کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے وکلاء نے صدر کے دفتر کو ایک خط میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کو اب بھی یقین ہے کہ قانونی کارروائی کے نتیجے میں انہیں مکمل بریت مل جائے گی۔
نیتن یاہو نے اپنی جماعت لیکود کی جانب سے جاری ایک مختصر ویڈیو بیان میں کہا کہ “میرے وکلاء نے آج ملک کے صدر کو معافی کی درخواست بھیج دی ہے۔ مجھے امید ہے کہ جو کوئی بھی ملک کی بھلائی چاہتا ہے وہ اس قدم کی حمایت کرے گا۔’’
نہ وزیر اعظم، جو پانچ سال سے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں، اور نہ ہی ان کے وکلاء نے کسی قسم کے جرم کا اعتراف کیا۔
اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ نے کہا کہ نیتن یاہو کو اُس وقت تک معافی نہیں دی جانی چاہیے جب تک وہ جرم تسلیم نہ کریں، ندامت کا اظہار نہ کریں اور فوراً سیاسی زندگی سے دستبردار نہ ہو جائیں۔
اسرائیل میں عام طور پر معافی اُس وقت دی جاتی ہے جب قانونی کارروائی مکمل ہو چکی ہو اور ملزم کو سزا سنائی جا چکی ہو۔ تاہم نیتن یاہو کے وکلاء نے مؤقف اختیار کیا کہ صدر عوامی مفاد کے تحت مداخلت کر سکتے ہیں، جیسا کہ اس معاملے میں، تاکہ اختلافات ختم کیے جائیں اور قومی اتحاد کو مضبوط کیا جا سکے۔
اسرائیلی صدر آئزک ہرتزوگ کے دفتر نے اس درخواست کو “غیر معمولی” اور “اہم نتائج کی حامل” قرار دیا۔ دفتر کے مطابق صدر متعلقہ آرا موصول ہونے کے بعد اس درخواست پر “ذمہ داری اور سنجیدگی سے غور کریں گے”۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ماہ ہرتزوگ کو خط لکھ کر وزیر اعظم کو معافی دینے پر غور کرنے کا کہا، اور کہا کہ ان کے خلاف مقدمہ “سیاسی اور غیر منصفانہ کارروائی” ہے۔
ہرتزوگ کے دفتر کا کہنا ہے کہ درخواست کو معمول کے مطابق وزارت انصاف کو بھیجا جائے گا تاکہ آراء اکٹھی کی جا سکیں، جو بعد ازاں صدر کے قانونی مشیر کو بھیجی جائیں گی جو صدر کو سفارش پیش کرے گا۔
اسرائیل کے وزیر انصاف یاریو لیون نیتن یاہو کی جماعت لیکود کے رکن اور وزیر اعظم کے قریبی اتحادی ہیں۔
خط میں نیتن یاہو کے وکلاء نے لکھا کہ ان کے خلاف فوجداری کارروائیوں نے معاشرتی تقسیم کو گہرا کر دیا ہے اور قومی مفاہمت کے لیے اس مقدمے کا خاتمہ ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بار بار ہونے والی عدالتی پیشیاں وزیر اعظم کے لیے بوجھ بن رہی ہیں، جبکہ وہ ملک چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے ویڈیو بیان میں کہا “مجھے ہفتے میں تین بار گواہی دینا ہوتی ہے… یہ ایک ناممکن مطالبہ ہے جو کسی اور شہری سے نہیں کیا جاتا،” نیتن یاہو نے زور دیا کہ انہوں نے بار بار انتخابات جیت کر عوام کا اعتماد حاصل کیا ہے۔
نیتن یاہو پر 2019 میں تین الگ مگر باہم متعلق مقدمات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی، جن کا تعلق ان الزامات سے ہے کہ انہوں نے نمایاں کاروباری شخصیات کو مراعات دیں، بدلے میں تحائف اور مثبت میڈیا کوریج حاصل کی۔
وزیرِ اعظم نے بارہا کسی بھی قسم کی غلطی سے انکار کیا ہے۔
حکومتی اتحادیوں نے نیتن یاہو کی معافی کی درخواست کی حمایت میں بیانات دیے، جن میں قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر اور وزیرِ خزانہ بزالل اسموٹریچ شامل ہیں۔
اپوزیشن سیاستدان یائر گولان، جو فوج کے سابق نائب سربراہ رہ چکے ہیں، نے وزیرِ اعظم سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے صدر سے اپیل کی کہ وہ معافی نہ دیں۔
نیتن یاہو ملک کے سب سے متنازع سیاسی رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جنہیں پہلی بار 1996 میں وزیر اعظم منتخب کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں میں رہے اور 2022 کے انتخابات کے بعد دوبارہ وزیر اعظم کے عہدے پر آئے۔
اگلا انتخاب اکتوبر 2026 تک متوقع ہے، اور کئی رائے عامہ کے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا اتحاد، جو اسرائیل کی تاریخ کا سب سے دائیں بازو کا اتحاد ہے، حکومت بنانے کے لیے کافی نشستیں حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
اپنے کیریئر کے دوران نیتن یاہو نے سیکیورٹی اور اقتصادی معاملات کو ترجیح دینے کی شہرت حاصل کی، لیکن وہ بدعنوانی کے الزامات سے بھی جڑے رہے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، اس وقت نیتن یاہو وزیرِ اعظم تھے۔ اس کے بعد سے انہوں نے غزہ میں تباہ کن جنگ کی نگرانی کی ہے، جس میں دسیوں ہزار فلسطینی ہلاک ہوئے اور علاقہ بڑی حد تک تباہ ہو گیا، جس پر عالمی سطح پر شدید تنقید اور مذمت کی گئی۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور رواں سال ایران کے خلاف جنگ بھی چھیڑی جس میں اہم فوجی تنصیبات کو تباہ کیا گیا۔
