تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب تارکین وطن کی ایک کشتی الٹنے کے بعد کم از کم سات لاشیں برآمد کر لی گئیں، کشتی میں 90 افراد سوار تھے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ملائیشیا کے حکام کا کہنا ہے کہ کشتی میں غیر قانونی تارکین وطن سوار تھے جو میانمار سے روانہ ہوئے تھے، اور یہ تقریباً 300 افراد کے ایک گروپ کا حصہ تھے جو کئی کشتیوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔
قداح ریاست کے پولیس سربراہ اعدزلی ابو شاہ نے ملائیشین میڈیا کو بتایا کہ تھائی لینڈ کے تاروٹاؤ جزیرے کے قریب اور ملائیشیا کے جزیرہ لینکاوی کے شمال میں الٹنے والی کشتی میں تقریباً 90 افراد سوار تھے۔
ملائیشین میری ٹائم انفورسمنٹ ایجنسی کے شمالی ریاستوں قداح اور پرلیس کے ڈائریکٹر روملی مصطفیٰ نے ایک بیان میں کہا کہ اتوار کے روز لینکاوی کے پانیوں میں تین زندہ افراد اور چھ لاشیں ملی ہیں، جس سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سات ہو گئی ہے، جبکہ اب تک کم از کم 13 افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔
روملی مصطفیٰ نے کہا کہ اتوار کو برآمد ہونے والی لاشوں میں ایک بچی اور پانچ خواتین شامل ہیں، تاہم ان کی قومیت یا نسل ظاہر نہیں کی گئی۔
اعدزلی ابو شاہ نے قومی خبر رساں ادارے برنامہ کو بتایا کہ ہفتے کو ملی ایک لاش کے بارے میں خیال ہے کہ وہ میانمار کی ستائی ہوئی روہنگیا اقلیت سے تعلق رکھنے والی خاتون کی ہے، ۔
روملی مصطفیٰ نے مزید کہا کہ تلاش اور بچاؤ کی کارروائیاں آج کے لیے ختم کر دی گئی ہیں اور پیر کو دوبارہ شروع ہوں گی، اور یہ ممکن ہے کہ مزید زندہ یا ہلاک شدہ افراد سمندر میں مل جائیں۔ ریاستی پولیس سربراہ کے مطابق، کشتی غالباً تین روز قبل ڈوبی تھی۔
اعدزلی کے مطابق، میانمار سے روانہ ہونے والے 300 تارکین وطن میں سے کچھ کو لے جانے والی دو دیگر کشتیاں بھی لاپتہ ہیں، جیسا کہ ویب سائٹ فری ملائیشیا ٹوڈے نے رپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گروپ پہلے ایک بڑی کشتی میں سوار ہوا تھا جو انہیں ملائیشیا کے قریب پانیوں میں لے گئی۔
انہوں نے برنامہ کو بتایا، “جب وہ سرحد کے قریب پہنچے تو انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ تین چھوٹی کشتیوں میں منتقل ہو جائیں، ہر کشتی میں تقریباً 100 افراد سوار تھے۔”
اعدزلی ابوشاہ نے کہا، “ہم نے ملائیشین میری ٹائم انفورسمنٹ ایجنسی اور میرین پولیس سے درخواست کی ہے کہ وہ تلاش اور بچاؤ کی کارروائیاں شروع کریں اور دیگر لاپتا کشتیوں کو تلاش کریں،”۔
ملائیشین پولیس نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
مالی طور پر نسبتاً خوشحال ملائیشیا میں ایشیا کے غریب حصوں سے آئے ہوئے لاکھوں تارکین وطن آباد ہیں، جن میں سے اکثر غیر قانونی طور پر آئے ہیں اور تعمیرات اور زراعت سمیت مختلف صنعتوں میں کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ سمندری سفر اکثر خطرناک ہوتا ہے، کیونکہ یہ انسانی اسمگلنگ کے گروہوں کے ذریعے منظم کیے جاتے ہیں، اور اکثر کشتیوں کے الٹنے کے واقعات پیش آتے ہیں۔
روملی مصطفیٰ نے کہا، “سرحد پار اسمگلنگ کے نیٹ ورکس اب زیادہ سرگرم ہو گئے ہیں اور تارکین وطن کو انسانی اسمگلنگ کا شکار بنا رہے ہیں، انہیں خطرناک سمندری راستوں کے ذریعے لے جایا جا رہا ہے۔”
ملائیشین میڈیا کے مطابق، یہ نیٹ ورکس ایک شخص سے ملک میں داخلے کے بدلے 3,500 امریکی ڈالر تک وصول کرتے ہیں۔
دسمبر 2021 میں ملائیشیا کے ساحل کے قریب کئی واقعات میں 20 سے زائد تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
