امریکا کی غزہ امن قرارداد، بین الاقوامی فوج کے دائرہ کار پر اختلاف کا امکان

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی منظوری کے لیے امریکا کی تیار کردہ قرارداد پر بات چیت شروع ہو گئی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی منظوری کے لیے امریکا کی تیار کردہ قرارداد پر بات چیت شروع کرنے جا رہی ہے، اب لگتا ہے کہ تجویز کردہ بین الاقوامی فوج کے کام کرنے کے دائرہ کار پر اختلاف پیدا ہو سکتا ہے۔

جمعرات کو امریکا نے اہم عرب اور مسلم ممالک کے نمائندوں کے ساتھ اس قرارداد پر تفصیلی بات چیت شروع کی۔

ایک دن پہلے امریکا نے یہ مسودہ قرارداد کونسل کے 15 ارکان کو بھیج دیا تھا اور حکام کا کہنا ہے کہ مصر، قطر، سعودی عرب، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات اس متن کے حق میں ہیں۔

بدھ کو امریکی نمائندہ مائیکل والٹز نے اقوام متحدہ میں کونسل کے 10 منتخب ارکان کا اجلاس طلب کیا تاکہ غزہ پر قرارداد کے لیے علاقائی حمایت دکھائی جا سکے۔

اس اجلاس میں الجزائر، ڈنمارک، یونان، گویانا، پاکستان، پاناما، جنوبی کوریا، سیرالیون، سلوینیا اور سومالیا کے نمائندے شامل تھے، جب کہ مصر، قطر، سعودی عرب، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کے سفیر بھی موجود تھے۔

بیان کے مطابق قرارداد کا مقصد امن بورڈ کو خوش آمدید کہنا اور صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے میں بیان کی گئی بین الاقوامی فورس (آئی ایس ایف) کو بااختیار بنانا ہے۔

ڈان نے پاکستان کے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا، لیکن رپورٹ تیار ہونے تک یہ تصدیق نہیں ہوئی کہ اسلام آباد نے مسودہ موصول کیا ہے۔

امریکی میڈیا اگزیوز نے بتایا کہ سفیر مائیکل والٹز نے نیویارک میں فلسطینی سفارتکاروں سے بھی اس مسودہ قرارداد پر بات کی۔

کونسل کی قرارداد منظور ہونے کے لیے کم از کم 9 ووٹ چاہیے اور روس، چین، فرانس، برطانیہ یا امریکا میں سے کسی کا ویٹو نہیں ہونا چاہیے۔

سفارتکاروں کے مطابق جب سلامتی کونسل کسی مضبوط اقدام، جیسے فوج بھیجنے کا ارادہ کرتی ہے، تو وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 7 کے تحت بات کرتی ہے، یہ باب کونسل کو قانونی اختیار دیتا ہے کہ اگر کوئی صورتحال عالمی امن کے لیے خطرہ ہو تو وہ زبردستی اقدام کر سکے۔

عام طور پر باب 7 فعال کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ صورتحال عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے، لیکن امریکی مسودہ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی صورتحال علاقائی امن اور پڑوسی ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

یہ فرق اہم ہے کیونکہ اس سے کچھ ممالک بعد میں کہہ سکتے ہیں کہ باب 7 باضابطہ طور پر فعال نہیں ہوا اور وہ منصوبے کے کچھ حصے چیلنج کر سکتے ہیں۔

یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ امن بورڈ کو غزہ کے انتظام کے لیے زیادہ اختیارات دینے کی ضرورت ہے، اگر مقامی حکام راضی نہ ہوں تو اس کے لیے اقوام متحدہ کو قانونی اجازت چاہیے ہوگی، بصورت دیگر بین الاقوامی قانون کے مطابق غزہ اب بھی مقبوضہ علاقہ سمجھا جائے گا اور قابض ملک اسے بنیادی طور پر تبدیل نہیں کر سکتا۔

مسودہ کے مطابق آئی ایس ایف کو تمام ضروری اقدامات کرنے کا اختیار ہوگا تاکہ وہ اپنا کام کر سکے، آئی ایس ایف شہریوں اور انسانی ہمدردی کی سرگرمیوں کی حفاظت کرے گی، اسرائیل، مصر اور نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ سرحد کی سیکیورٹی بھی یقینی بنائے گی۔

فورس غزہ میں سیکیورٹی مستحکم کرے گی اور غزہ کی غیر مسلح کاری کو یقینی بنائے گی، جس پر مسلم ممالک کے کچھ نمائندوں کو تحفظات ہیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق آئی ایس ایف کو حماس کو ہتھیار ڈالنے کا اختیار ہوگا، لیکن امریکا امید کرتا ہے کہ حماس معاہدے کے مطابق اپنے ہتھیار چھوڑ دے۔

سینئر امریکی اہلکار کے مطابق آئی ایس ایف میں تقریباً 20 ہزار فوجی ہوں گے۔

اگرچہ امریکا نے اپنے فوجی نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ انڈونیشیا، یو اے ای، مصر، قطر، ترکیہ اور آذربائیجان سے تعاون پر بات کر رہا ہے، پاکستان کا نام بھی ممکنہ فوجی تعاون میں آیا ہے، لیکن اسلام آباد نے ابھی تک اس پر باضابطہ بیان نہیں دیا۔

امریکی اہلکار نے کہا کہ ہم ممکنہ فوجی شراکت داروں سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ دیکھیں کہ انہیں کس قسم کی اجازت اور زبان چاہیے، تقریباً سب ممالک کسی نہ کسی قسم کی بین الاقوامی اجازت چاہتے ہیں، ترجیح اقوام متحدہ کی ہے۔

امریکی اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ مسودہ کب ووٹ کے لیے پیش ہوگا تو انہوں نے کہا کہ جتنا جلد ممکن ہو، بہتر ہے، ہم ہفتوں کی بات کر رہے ہیں، مہینوں کی نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس اور چین اپنی رائے دیں گے، لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ یہ ممالک اس منصوبے کو روکیں گے، جو ایک نسل کا سب سے امید افزا امن منصوبہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے