جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں کے اب پابند نہیں ہیں، ایران

ایران نے واضح کیا ہے کہ وہ اب اپنے جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں کا پابند نہیں رہا، کیونکہ اس کے اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والا تاریخی 10 سالہ معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ معاہدہ 2015 میں ویانا میں ایران، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے بدلے تہران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم کی گئی تھیں۔

تاہم یہ معاہدہ پہلے ہی کمزور ہو چکا تھا جب امریکا نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں یکطرفہ طور پر اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، جس کے بعد ایران نے بھی اپنے وعدوں سے بتدریج انحراف کیا۔

گزشتہ ماہ معاہدے کے 3 یورپی دستخط کنندگان کی درخواست پر اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی بحالی نے اس معاہدے کو عملاً غیر مؤثر بنا دیا۔

ایرانی وزارتِ خارجہ نے معاہدے کی مدت ختم ہونے کے دن جاری ایک بیان میں کہا کہ آج سے معاہدے کی تمام شقیں، بشمول ایرانی جوہری پروگرام پر عائد پابندیاں اور ان سے متعلقہ نظام، ختم تصور کیے جائیں گے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ایران سفارتکاری سے اپنی پختہ وابستگی کا اظہار کرتا ہے۔

مغربی طاقتیں طویل عرصے سے ایران پر خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کا الزام لگاتی رہی ہیں لیکن ایران نے بارہا اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف توانائی کی پیداوار اور شہری مقاصد کے لیے ہے۔

معاہدے کا خاتمے کا دن 18 اکتوبر 2025 طے کیا گیا تھا، یعنی وہ دن جب اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت باضابطہ طور پر نافذ ہوئے 10 سال مکمل ہو گئے۔

اس معاہدے کے تحت ایران کی یورینیم افزودگی 3.67 فیصد تک محدود رکھی گئی تھی، جس کے بدلے میں پابندیوں میں نرمی دی گئی تھی، اور اس کے جوہری پروگرام پر اقوامِ متحدہ کے ادارے، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی سخت نگرانی شامل تھی۔

تاہم واشنگٹن نے 2018 میں معاہدے سے علیحدگی اختیار کی اور دوبارہ پابندیاں نافذ کر دیں، جس کے بعد ایران نے اپنے جوہری پروگرام میں تیزی لانا شروع کر دی۔

آئی اے ای اے کے مطابق ایران واحد ایسا ملک ہے جس کا کوئی جوہری ہتھیاروں کا پروگرام نہیں، لیکن وہ یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے، جو کہ جوہری بم کے لیے درکار 90 فیصد حد کے قریب ہے، اور عام شہری استعمال کے لیے درکار سطح سے کہیں زیادہ ہے۔

جولائی میں ایران نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد آئی اے ای اےکے ساتھ تعاون معطل کر دیا، اور الزام عائد کیا کہ ایجنسی نے اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت نہیں کی جن میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسرائیل کی جانب سے تہران پر بمباری اور اس کے جواب میں ایران کی جوابی کارروائی نے 12 روزہ جنگ کے دوران تہران اور واشنگٹن کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کو پٹری سے اتار دیا۔

فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی درخواست پر ستمبر کے آخر میں ایران پر 10 سال بعد پہلی مرتبہ اقوامِ متحدہ کی وسیع پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی گئیں۔

ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے ہفتے کے روز اقوامِ متحدہ کو ایک خط میں کہا کہ 2015 کے معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد یہ پابندیاں بے اثر ہو گئی ہیں۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا کہنا ہے کہ ایران آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا، اور وہ چاہتے ہیں کہ ایران ، امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپس آئے۔

ایرانی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کے روز اپنے بیان میں کہا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ اُن تبادلوں کو بحال کرنے کی ایران کی کوششیں، جنہوں نے قاہرہ معاہدے کو ممکن بنایا، ان 3 یورپی ممالک کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے باعث ناکام ہوئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے