وزارت اطلاعات نے ایک بھارتی نیوز چینل کے ان غیر تصدیق شدہ یا سیاسی مقاصد پر مبنی دعووں کی تردید کی ہے کہ پاکستان غزہ میں 20 ہزار فوجی بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے اور یہ کہ پاکستان نے اپنے پاسپورٹ سے یہ شق ہٹا دی ہے کہ یہ ’اسرائیل کیلئے کارآمد نہیں‘۔
بھارتی نیوز آؤٹ لَیٹ ’ری پبلک ٹی وی‘ نے یہ الزامات لگائے تھے، جس میں فوجیوں کی تعداد کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ پاکستان اپنی افواج مغربی ممالک اور اسرائیل کی نگرانی میں غزہ بھیجنے کا ارادہ کر رہا ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک بیان کے مطابق چینل نے یہ ’مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا تھا کہ پاکستان نے پاسپورٹ سے ’اسرائیل کے لیے کارآمد نہیں‘ کی شق بھی ہٹا دی ہے۔‘
وزارت اطلاعات نے ایکس پر جاری ایک بیان میں وزارتِ خارجہ کے ایک پریس ریلیز کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف بدستور قائم ہے، اسلام آباد اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اور کسی بھی قسم کا فوجی تعاون یا تعلقات موجود نہیں ہیں اور نہ ہی زیرِ بحث ہیں۔
اس کے علاوہ، وزارت نے واضح کیا کہ پاسپورٹ کی شق برقرار ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹس اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس پر اب بھی ’سوائے اسرائیل کے تمام ممالک کے لیے کارآمد‘ درج ہے۔
وزارت اطلاعات نے بتایا کہ وزارت خارجہ کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی پرزور حمایت کرتا ہے، جس میں 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
وزارت اطلاعات نے مزید کہا کہ یہ دعویٰ ’ری پبلک ٹی وی‘ کی جانب سے کیا گیا، جو سنسنی خیز اور پاکستان مخالف بیانیے کے لیے جانا جاتا ہے، کسی بین الاقوامی یا علاقائی میڈیا آؤٹ لَیٹ نے اس دعوے کو نشر نہیں کیا۔’
وزارت اطلاعات نے مزید زور دیا کہ سرکاری بیانات اور تصدیق شدہ پالیسی اپ ڈیٹس پر بھروسہ کیا جائے اور جانبدار میڈیا کے غیر تصدیق شدہ یا سیاسی مقاصد پر مبنی دعووں سے گریز کیا جائے۔
واضح رہے کہ اس ہفتے کے اوائل میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ غزہ امن فورس کے لیے پاکستانی فوجی بھیجنے کے حوالے سے فیصلے کو ابھی حتمی شکل دی جا رہی ہے اور یہ عمل جاری ہے۔
امریکا کی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن معاہدے کا ایک اہم ستون ’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘ (آئی ایس ایف) کا قیام ہے، جو بنیادی طور پر مسلم اکثریتی ممالک کے فوجیوں پر مشتمل ہوگی، مذاکراتی عمل سے منسلک رہنے والے حکام کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے اس فیصلے کے بارے میں جلد ہی ایک اعلان متوقع ہے۔
معاملے کی نزاکت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرنے والے حکام نے بتایا تھا کہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بات چیت آخری مراحل میں ہے، ان کے مطابق اندرونی مشاورت کا لہجہ بتاتا ہے کہ اسلام آباد اس مشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
جیو نیوز کے شو ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں ایک انٹرویو کے دوران جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا اس طرح کا کوئی اقدام زیرِ غور ہے یا نہیں، تو خواجہ آصف نے کہا تھا کہ اس حوالے سے فیصلہ کرنا ہے اور یہ عمل جاری ہے، حکومت اس عمل سے گزرنے کا فیصلہ کرے گی اور میں اس سے پہلے کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا اور تمام اداروں کو اس اقدام کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔
وزیر دفاع نے کہا تھا کہ اگر مسلمان ممالک امن فورس میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں اور پاکستان کو بھی حصہ لینا پڑتا ہے، تو ’فلسطینیوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا ملک کے لیے فخر کا لمحہ ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ اگر یہ موقع ہمیں دستیاب ہوتا ہے تو پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔’
